Maktaba Wahhabi

563 - 738
التَّاسِعَۃَ فَیَقْعُدُ ثُمَّ یَحْمَدُ رَبَّہٗ وَیُصَلِّیْ عَلٰی نَبِیِّہٖ وَیَدْعُوْ ثُمَّ یُسَلِّمُ تَسْلِیْمَۃً یُسْمِعُنَا۔۔۔الخ))[1] ’’ہم نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار کیا کرتی تھیں۔جب رات کو اللہ چاہتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کر دیتا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے،پھر وضو کرتے،پھر نو رکعتیں پڑھتے۔ان کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھتے نہیں تھے سوائے آٹھویں رکعت کے بعد۔تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کو پکارتے،اپنے آپ پر درود پڑھتے،پھر اٹھ جاتے اور سلام نہ پھیرتے،پھر نویں رکعت پڑھتے اور قعدہ کرتے،پھر اپنے رب کی حمد بیان کرتے اور اس کے نبی پر درود پڑھتے اور دعا کرتے اور سلام پھیرتے اور اس کی آواز ہمیں سناتے۔‘‘ 3۔ اس کے علاوہ موطا امام مالک میں حضرت نافع رحمہ اللہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا تشہد نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: ’’یَقُوْلُ ہٰذَا فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْاُوْلَیَیْنِ وَیَدْعُوْ اِذَا قَضیٰ تَشَہُّدَہٗ۔۔۔الخ‘‘[2] ’’یہ وہ پہلی دو رکعتوں کے بعد پڑھتے اور جب تشہد پڑھ لیتے تو دعا کرتے۔۔۔الخ۔‘‘ لیکن یہ حدیث موقوف ہے۔اسی وجہ سے تشہد کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کا قائل کوئی نہیں،کیونکہ وہ اسی حدیث میں وارد ہوئی ہے اور اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔تاہم نفس مسئلہ میں صحیح حدیث موجود ہے اور صرف قعدئہ اولیٰ میں دعا سے تعلق رکھنے والا حصہ اس سے بھی مؤید ہے۔ہاں اگر اس دعا سے مراد درود شریف لے لیا جائے،جو دراصل دعا ہی ہے تو اس کا جواز ثابت ہے،جیسا کہ تفصیل آگے آ رہی ہے۔ سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے: ((قُوْلُوْا فِیْ کُلِّ جَلْسَۃٍ:التَّحِیَّاتُ۔۔۔))’’ہر جلسے میں التحیات۔۔۔پڑھو۔‘‘ 4۔ وجوبِ تشہد کے دلائل میں سنن ابو داود و بیہقی میں وارد اچھی طرح سے نماز نہ پڑھنے والے اعرابی کی اور ابن دقیق العید(التلخیص:1/ 263)کی حدیث میں ہے:
Flag Counter