Maktaba Wahhabi

540 - 738
چلتا ہے کہ زمین پر ہاتھ لگنے ہی نہیں چاہییں،لیکن ان روایات کی استنادی حیثیت اس قدر مخدوش ہے کہ اس بات کو پایۂ ثبوت تک پہنچانے سے قاصر ہیں۔مثلاً: 1۔ ترمذی،بیہقی،سنن سعید اور الکامل ابن عدی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں: ((کَانَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَنْہَضُ فِی الصَّلَاۃِ عَلٰی صُدُوْرِ قَدَمَیْہِ))[1] ’’نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پاؤں کے پنجوں کے بل اٹھتے تھے۔‘‘ یہ حدیث مانعین جلسۂ استراحت کے دلائل کے ضمن میں دوسرے نمبر پر ذکر کے ہم بتا آئے ہیں کہ یہ ناقابل حجت ہے اور اس کا ضعیف ہونا بھی قدرے تفصیل سے بیان کر چکے ہیں۔[2] 2۔ اسی موضوع کی ایک حدیث سنن کبریٰ بیہقی اور مصنف ابنِ ابی شیبہ میں حضرت علی رضی اللہ سے مروی ہے جس میں ہے: ((مِنَ السُّنَّۃِ فِی الصَّلَاۃِ الْمَکْتُوْبَۃِ اِذَا نَہَضَ الرَّجُلُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْاُوْلَیَیْنِ اَنْ لَا یَعْتَمِدَ عَلَی الْاَرْضِ اِلَّا اَنْ یَکُوْنَ شَیْخًا کَبِیْرًا لَا یَسْتَطِیْعُ))[3] ’’فرض نمازوں میں سنت ہے کہ پہلی دو رکعتوں میں جب کوئی اٹھے تو وہ زمین پر ٹیک لگا کر نہ اٹھے اِلاّ یہ کہ کوئی بوڑھا ہونے کی وجہ سے سیدھا نہ اٹھ سکتا ہو۔‘‘ لیکن یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔امام احمد بن حنبل،ابنِ معین،بیہقی اور دیگر محدثین کرام رحمہم اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔[4] 3۔ سنن ابو داود میں ایک روایت میں عبدالجبار بن وائل بن حجر اپنے والد حضرت وائل بن حجر رضی اللہ کے واسطے سے بیان کرتے ہیں: ((۔۔۔وَاِذَا نَہَضَ نَہَضَ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَاعْتَمَدَ عَلٰی فَخِذَیْہِ[فَخِذِہٖ]))[5] ’’جب آپ اٹھتے تو گھٹنوں کے بل اٹھتے اور اپنی رانوں پر ٹیک لگا لیتے تھے۔‘‘
Flag Counter