Maktaba Wahhabi

533 - 738
((ثُمَّ کَبَّرَ فَقَامَ وَلَمْ یَتَوَرَّکْ))[1] ’’پھر تکبیر کہی اور کھڑے ہو گئے اور تورّک نہیں کیا(بیٹھے نہیں)۔‘‘ اس حدیث کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ابو داود ہی میں ایک دوسری اور صحیح سند کے ساتھ اور سنن ترمذی میں بھی انھی حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ سے مروی حدیث میں جلسۂ استراحت کا ذکر موجود ہے۔یہ حدیث صحیح بخاری،سنن اربعہ،دارمی،بیہقی،طحاوی،ابنِ الجارود اور مسند احمد کے حوالے سے قائلینِ جلسہ کے دلائل میں پہلے نمبر پر ذکر کی جا چکی ہے،لہٰذا اسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ بہرحال ان دونوں حدیثوں کو صحیح اور ہم پلہ مان لینے کی صورت میں بھی اثبات والی حدیث کو اختیار کرنا اولیٰ ہے،کیونکہ ترجیح کے اصولوں میں سے ایک اصولِ ترجیح یہ ہے: ’’المُثبت مُقدّم علی النّافي‘‘[2] ’’ثابت کرنے والا نفی کرنے والے پر مقدم ہوتا ہے۔‘‘ 5۔ ان کا استدلال بعض ایسی احادیث سے بھی ہے جو صحیح تو ہیں،لیکن صریح نہیں ہیں۔مثلاً صحیح بخاری اور بعض دیگر کتب کے حوالے سے حضرت عکرمہ رضی اللہ والی حدیث ہم بیان کر چکے ہیں،جس میں انھوں نے بائیس تکبیروں کے ساتھ چار رکعتیں پڑھانے والے ایک مکی شیخ کو ’’سٹھیا یا ہوا‘‘ احمق کہہ دیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ،سُنَّۃُ اَبِی الْقَاسِمِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘ [3] ’’تمھیں تمھاری ماں گم پائے،یہ تو ابوالقاسم(صلی اللہ علیہ وسلم)کی سنت ہے۔‘‘ اس حدیث سے استدلال یوں کیا جاتا ہے کہ اس میں جلسۂ استراحت کا ذکر نہیں ہے۔اگر اس کا بھی ذکر ہوتا تو تکبیراتِ انتقال بائیس نہیں،بلکہ پہلی اور تیسری رکعت کے دو جلسوں سے اٹھنے کی دو اور تکبیریں شامل کر کے چوبیس ہوتیں۔جب چوبیس نہیں تو معلوم ہوا کہ جلسۂ استراحت نہیں۔لیکن یہ استدلال دُور کی کوڑی لانے والی بات ہے یا پھر یوں کہہ لیں کہ یہ محض اشارے سے دلالت ہے،عبارت سے نہیں اور یہ معروف اصول ہے:
Flag Counter