Maktaba Wahhabi

529 - 738
کا ذکر ہی وارد نہیں ہوا۔یہ ذکر وارد ہے،اگرچہ اس کے ورود پر کلام کیا گیا ہے۔[1] چنانچہ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں امام بخاری رحمہ اللہ کے الفاظ سے اخذ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حدیث میں جلسۂ استراحت کا ذکر ’’شاذ‘‘ یا ’’وہم‘‘ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس جلسۂ استراحت کے وجوب کا کوئی بھی قائل نہیں۔اگر یہ الفاظ اسی جلسہ کے لیے محفوظ ہوتے تو یہ جلسے واجب قرار پاتا۔[2] جب یہ الفاظ متکلم فیہ ہوئے تو اس کا وجوب ثابت نہ ہوا،البتہ دوسری دو احادیث میں اس کا ورود اس کے استحباب کے لیے کافی ہے۔ 4۔ اسی طرح ابو داود،ترمذی،ابنِ ماجہ،مستدرک حاکم،الدعوات الکبیر بیہقی اور دیگر کتبِ حدیث میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی نمازِ تسبیح کا پتا دینے والی حدیث سے بھی ’’جلسۂ استراحت‘‘ پر استدلال کیا گیا ہے،کیونکہ اس میں بھی دونوں سجدوں سے فارغ ہونے کے بعد اور اگلی رکعت کے لیے کھڑے ہونے سے پہلے ’’جلسہ استراحت‘‘ کا ذکر وارد ہوا ہے: ((ثُمَّ تَرْفَعُ رَاْسَکَ فَتَقْعُدَ لَہَا عَشْرًا))[3] ’’پھر سجدے سے سر اٹھاؤ اور دس مرتبہ تسبیح پڑھو۔‘‘ نمازِ تسبیح کے اثبات کے بارے میں طویل بحث کرنے کے بعد علامہ عبدالحی لکھنوی نے اپنی کتاب ’’الآثار المَرفوعۃ‘‘ میں لکھا ہے: ’’ہمارے اکثر علماء احناف اور مشائخ صوفیا نے نمازِ تسبیح کی وہ کیفیت ذکر کی ہے جو امام ترمذی و حاکم نے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے نقل کی ہے،جس میں جلسۂ استراحت نہیں ہے،جبکہ شافعیہ اور اکثر محدثین کرام نے اس کیفیت کو اختیار کیا ہے جس میں جلسہ استراحت مذکور ہے،جبکہ ہماری ذکر کی گئی تفصیلات سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے صحیح تر کیفیت یہی جلسہ استراحت والی ہی ہے،لہٰذا جسے بھی نمازِ تسبیح پڑھنا ہو،
Flag Counter