Maktaba Wahhabi

482 - 738
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے بہ حالتِ سجدہ کہنیاں پہلوؤں سے ہٹا کر اور اٹھا کر رکھنے میں مشقت کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’گھٹنوں(پر ٹیک لگا کر اُن)سے تعاون حاصل کر لو۔‘‘ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس حدیث کے ایک راوی ابن عجلان سے((اِسْتَعِیِْنُوْا بِالرُّکَبِ))کا یہ معنی بیان کیا ہے: ’’وَذٰلِکَ اَنْ یَّضَعَ مِرْفَقَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ اِذَا طَالَ السُّجُودَ وَاَعْیَا‘‘[1] ’’اور وہ یوں کہ کہنیوں کو گھٹنوں پر رکھ لے،لیکن تب جب طویل سجود کی وجہ سے تھک جائے۔‘‘ یہی حدیث سنن ترمذی میں بھی مروی ہے،سوائے اس کے کہ بہ قول حافظ ابن حجر اس میں کہنیوں اور بازوؤں کو الگ رکھنے کے الفاظ نہیں ہیں،حالانکہ اس میں بھی یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں،شاید موصوف کے نسخے میں نہ ہوں گے۔چنانچہ اس میں مذکور ہے: ((اِشْتَکٰی اَصْحَابُ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم مُشَقَّۃَ السُّجُوْدِ عَلَیْہِمْ اِذَا تَفَرَّجُوْا فَقَالَ:اِسْتَعِیْنُوْا بِالرُّکَبِ))[2] ’’بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے بہ حالتِ سجدہ کہنیاں پہلوؤں سے ہٹا کر اور اٹھا کر رکھنے میں مشقت کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:گھٹنوں(پر ٹیک لگا کر اُن)سے تعاون حاصل کر لو۔‘‘ جبکہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ سنن ابو داود میں جو دو اضافی الفاظ ’’اِذَا انْفَرَجُوا‘‘ ہیں(جو دراصل متداول نسخۂ سنن ترمذی میں بھی موجود ہیں)وہ اس حدیث کی اصل مراد و مفہوم کو متعین کر دیتے ہیں کہ اس حدیث میں بہ وقتِ ضرورت کہنیوں کو گھٹنوں پر رکھ لینے کی گنجایش کا ذکر ہے۔[3] امام ترمذی نے اس حدیث کو روایت کر کے اس کی سند پر کلام کیا اور اسے مُرسل کہا ہے۔ایسے ہی امام بخاری سے نقل کیا گیا ہے۔شیخ البانی نے اس حدیث کو ضعیف سنن ابی داود(ص:88،89)اور ضعیف سنن الترمذی(ص:32،33)میں وارد کیا ہے،جبکہ تحفۃ الاحوذی میں علامہ مبارک پوری
Flag Counter