Maktaba Wahhabi

465 - 738
’’دو حدیثوں میں سے ایک قولی اور دوسری فعلی ہو تو قول بیان میں زیادہ بلیغ ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی دلیل و حجت ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے،البتہ اتباعِ عمل میں اختلاف ہے،کیونکہ فعل فی نفسہٖ کسی چیز پر دلالت نہیں کرتا بخلاف قول کے،لہٰذا قولی حدیث اقویٰ(زیادہ قوی)ہوتی ہے۔‘‘ علامہ ابن الترکمانی حنفی نے بھی سنن کبریٰ بیہقی کے حاشیہ الجوہر النقی میں لکھا ہے کہ ہاتھ پہلے رکھنے کا پتا دینے والی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی حدیث قولی ہے اور حضرت عمر رضی اللہ سے مروی حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے،لہٰذا علماء اصول کے نزدیک اسے گھٹنے پہلے رکھنے کا پتا دینے والی حضرت وائل رضی اللہ سے مروی حدیث پر ترجیح ہوگی،کیونکہ اس کی دلالت فعلی ہے۔[1] یہاں قولی کی فعلی پر ترجیح والے اصول کی بنیاد میں کار فرما سبب بھی بیان کرتے جائیں کہ امت کی نسبت قولی حدیث میں کسی قسم کا کوئی اشکال نہیں پایا جاتا کہ یہ عمل افرادِ امت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا ہے،جبکہ فعلی حدیث میں اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ وہ عمل کہیں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے نہ ہو۔جیسے ایک مرد کے نکاح میں زیادہ سے زیادہ چار بیویوں والی آیت اور قولی احادیث ہیں،اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک بیک وقت نو(9)ازواجِ مطہرات سے نکاح ہے۔ہمارے لیے قول واجب العمل ہے اور یہ فعل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے۔خصائص کے بارے میں عموماً صراحت ہوتی ہے،لیکن چونکہ کبھی صراحت نہ ہونے کی وجہ سے کسی کام کے خصائصِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہونے کا امکان ہوتا ہے،لہٰذا علماء اصول نے مستقل اصول وضع کر دیا کہ قولی حدیث راجح ہوگی اور فعلی مرجوح،اور مسئلہ زیر بحث میں قولی حدیث پہلے ہاتھ رکھنے کا پتا دیتی ہے۔ 2۔ اگر دونوں طرح کی احادیث کو صحیح مان لیا جائے(حالانکہ فی الحقیقت ایسا نہیں ہے)تو پھر بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ہاتھوں والی قولی حدیث کی تائید حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک دوسری صحیح حدیث سے بھی ہوتی ہے،جو صحیح بخاری میں تعلیقاً و موقوفاً اور صحیح ابن خزیمہ،سنن دارقطنی،سنن بیہقی،کتاب الاعتبار حازمی اور مستدرک حاکم کے حوالے سے ہم ذکر کر چکے ہیں۔امام حاکم نے اپنا رجحان ہاتھوں والے نظریے کی طرف ظاہر کیا ہے اور اس کا سبب
Flag Counter