Maktaba Wahhabi

454 - 738
شرح السنہ بغوی کی تحقیق میں شیخ شعیب نے اس کے دو اور طرق بھی بتائے ہیں جن میں سے ایک ابوداود میں محمد بن حجادہ عن عبدالجبار بن وائل عن ابیہ والا طریق ہے،جبکہ عبدالجبار نے اپنے والد سے سماع کی خود ہی نفی بھی کی ہے۔آگے چل کر ’’تنبیہ‘‘ کے زیر عنوان انھوں نے لکھا ہے کہ موارد الظمآن فی زوائد ابن حبان میں اسرائیل بن یونس کے طریق سے بھی یہ حدیث مروی ہے اور اگر یہ اسرائیل شریک سے تحریف شدہ نہ ہو تو پھر یہ شریک کے لیے اچھی متابعت ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔جبکہ حفاظ میں سے کسی نے اس طرف توجہ نہیں دلائی سوائے ملا علی قاری کے،انھوں نے المرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ابن حجر ہیتمی سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کے دو طریق اور بھی ہیں اور ان کی مراد شاید یہی ابو داود و ابن حبان والے دونوں طریق ہوں۔[1] لیکن شیخ البانی نے ملا علی قاری کی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ولا تغتر لما حکاہ الشیخ القاری عن ابن حجر الفقیہ:أن لہ طریقین آخرین،فإنہ من أوہامہ‘‘[2] ’’ملا علی قاری نے ابن حجر فقیہ سے جو نقل کیا ہے کہ ’’اس کے دو اور بھی طرق ہیں ‘‘ اس سے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے،کیونکہ یہ ان کے اوہام میں سے ہے۔‘‘ موارد الظمآن(ص:132،حدیث:487)کی سند میں اسرائیل واقعی تحریف شدہ ہے،کیونکہ اصل ابن حبان میں یہاں شریک ہی ہے[3] جو ضعیف ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ روایت ضعیف ہے اور درجۂ صحت و حسن کو نہیں پہنچتی،اگرچہ ابن حبان و ابن خزیمہ اور ابن سکن وغیرہ نے اس کی تصحیح کی ہے۔ 2۔ اسی مفہوم کی ایک روایت سنن ابن ماجہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ سے مرفوعاً مروی ہے،جس میں مذکور ہے: ((کَانَ یَخِرُّ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَلَا یَتَّکِیُٔ))[4]
Flag Counter