Maktaba Wahhabi

452 - 738
ہاتھ گھٹنوں پر رکھے۔‘‘ امام بیہقی نے اسے روایت کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اگر یہ محفوظ ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سجدے جاتے وقت پہلے ہاتھ اور پھر گھٹنے زمین پررکھے جائیں۔امام بیہقی نے اپنے خدشے کا اظہار فرما دیا ہے،جبکہ اس مفہوم کی حدیث ہم ذکر کر آئے ہیں جسے کبار محدثین نے محفوظ و صحیح اور راجح قرار دیا ہے،لہٰذا اس روایت سے استدلال نہیں تو استشہاد میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ 5۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ((اَدْرَکْتُ النَّاسَ یَضَعُوْنَ اَیْدِیَہُمْ قَبْلَ رُکَبِہِمْ،وَرُوِیَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِیْہِ حَدِیْثٌ))[1] ’’میں نے لوگوں(صحابہ کرام رضی اللہ عنہم)کو پایا ہے کہ وہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھتے تھے اور حضرت ابن عمر(رضی اللہ عنہما)سے اس معاملے میں ایک حدیث بھی مروی ہے۔‘‘ غرض کہ امام مالک اور اوزاعی رضی اللہ عنہ کا یہی مسلک ہے کہ سجدے میں جاتے وقت پہلے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے جائیں اور پھر گھٹنے۔امام ابن الجوزی نے التحقیق میں اور امام ابن قدامہ نے المغنی میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک بتایا ہے،اگرچہ ان سے دوسری روایت بھی ملتی ہے۔علامہ ابن حزم بھی اسی کے قائل تھے اور ابن ابی داود کے بہ قول تمام محدثین کا بھی یہی مسلک ہے،جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد(1/ 230)میں،امام ابن حزم نے المحلیٰ(4/ 2/ 129)میں،امام بغوی نے شرح السنہ(3/ 134)میں،حافظ ابن حجر نے فتح الباری(2/ 291)میں،علامہ عبدالرحمن مبارک پوری نے تحفۃ الاحوذی(2/ 135)میں،علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے عون المعبود(3/ 71)میں،امام شوکانی نے نیل الاوطار(2/ 1/ 253،254)میں،امام حازمی نے کتاب الاعتبار(ص:80)میں اور ابن قدامہ نے المغنی(1/ 514)میں اس کی تفصیل ذکر کی ہے۔امام ابو داود کے بیٹے نے اسے ہی اہل مدینہ کا مذہب قرار دیا ہے۔[2]
Flag Counter