Maktaba Wahhabi

378 - 738
جو سورۃ القیامہ کی آخری آیت{اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلٰی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰی﴾(کیا اللہ مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے؟)پڑھے تو وہ کہے:’’بَلٰی‘‘(کیوں نہیں)اور جو سورۃ المرسلات کی آخری آیت﴿فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ(اب وہ اس قرآن کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے؟)پڑھے تو وہ کہے:’’اٰمَنَّا بِاللّٰہِ‘‘(ہم اللہ پر ایمان لائے)۔‘‘ اس روایت کی سند کو ضعیف قرار دیا گیا ہے،کیونکہ اس کی سند میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے بیان کرنے والا کوئی اعرابی ہے جس کا نام و پتا معلوم نہیں۔امام ترمذی نے لکھا ہے کہ یہ حدیث اس سند کے سوا کسی دوسری سند سے مروی بھی نہیں ہے،لہٰذا یہ سند اس مجہول اعرابی کی وجہ سے ضعیف ہوئی۔’’المجموع شرح المھذّب‘‘ میں امام نووی نے لکھا ہے کہ ہمارے فقہاے شافعیہ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے،لیکن یہ حدیث اس اعرابی کے مجہول و نامعلوم ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔[1] مصنف عبدالرزاق میں اسماعیل بن امیہ نے تابعی اور صحابی یعنی اس مجہول اعرابی اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ دونوں کو سند سے نکال کر خود بلاواسطہ یہ حدیث مرفوعاً بیان کر دی ہے،لہٰذا یہ روایت معضل ہے اور ضعیف و ناقابل استدلال ہے۔پھر اس روایت میں ان آیات کے جواب دینے کا حکم بھی نہیں ہے،بلکہ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا فعل مذکور ہوا ہے۔[2] غرض سورۃ التین اور مرسلات کی آخری آیات کا جواب دینا ثابت نہیں ہے۔ البتہ مستدرک حاکم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ ہی سے مروی ایک حدیث ہے،جس میں سورۃ القیامہ کی آخری آیت کے بعد ’’بَلٰی‘‘ اور سورۃ التین کی آخری آیت کے بعد بھی ’’بَلٰی‘‘ کہنے کا ذکر وارد ہوا ہے،اس میں بھی صرف عمل ہی مذکور،حکم نہیں۔ اس حدیث میں اگر کچھ جان ہوتی تو وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ والی حدیث کی شاہد بن کر اُس کی تقویت کا باعث بن جاتی یا کم از کم سورۃ التین کے جواب کی موید ہو جاتی،لیکن دراصل یہ حدیث بھی سخت ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی ابوالیسع مجہول ہے اور دوسرا یزید بن عیاض متہم بالکذب ہے۔[3]
Flag Counter