Maktaba Wahhabi

302 - 738
’’تنبیہ‘‘ میں ہے: ’’إن من العرب من یجعل الضاد ظاء مطلقا في جمیع کلامہم،وہذا قریب،وفیہ توسعۃ للعامۃ‘‘ ’’بعض عرب اپنے تمام کلام میں ’’ض‘‘ کو ’’ظ‘‘ بولتے ہیں اور یہی قرینِ قیاس ہے۔عوام الناس کو بھی اس میں وسعت ہے۔‘‘ حاشیہ بیضاوی میں ہے: ’’إن أکثر الناس خصوصًا العجم،کانوا في الزمان الأول لا یعلمون الفرق بینہما یعني بین الضاد والظاء‘‘ ’’پہلے زمانے کے اکثر لوگ خصوصاً عجمی ’’ض‘‘ اور ’’ظ‘‘ میں فرق نہیں جانتے تھے۔‘‘ شیخ جمال مکی حنفی کے فتوے میں ہے: ’’فمنہم من یجعلہا ظآء ہذا لیس بعجب لثبوت تشابہ وعسر التمییز بینہما‘‘ ’’ض کو ظ پڑھنا کوئی تعجب کی بات نہیں،اس لیے کہ ان میں مشابہت ثابت ہے اور فرق کرنا مشکل ہے۔‘‘ امام غزالی ’’إحیاء العلوم‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’وفرقۃ أخریٰ تغلب علیہم الوسوسۃ في إخراج حروف الفاتحۃ وسائر الأذکار من مخارجہا فلا یزال یحتاط في التشدیدات والفرق بین الضاد والظاء وتصحیح مخارج الحروف في جمیع صلَاتہ لا یہمہ غیرہ ولا یتفکر فیما سواہ ذاہلاً عن معنی القرآن واتعاذ بہ وصرف الفہم في إسرارہ وہذا من أقبح أنواع الغرور‘‘[1] ’’بعض وہمی لوگ حرفوں کو مخرجوں سے نکالنے میں اور ’’ض‘‘ اور ’’ظ‘‘ میں فرق کرنے کی احتیاط کرتے کرتے نماز میں قرآن کے معانی اور اسرار سمجھنے سے غافل ہو جاتے ہیں۔یہ ان کے لیے بڑا دھوکا ہے۔‘‘ ’’البیان الجزیل في الترتیل‘‘(ص:52)میں ہے کہ ایک بلاے عام اس زمانے میں
Flag Counter