Maktaba Wahhabi

270 - 738
1۔ قاضی ابوالطیب طبری کے بیان کے مطابق ابن ابی لیلیٰ نے کہا ہے کہ ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ کو آواز سے پڑھنا یا بلا آواز پڑھنا دونوں طرح برابر ہے۔[1] ظاہر ہے کہ یہ دونوں طرح کی روایات کے پیش نظر کہا گیا ہے۔ 2۔ یہی بات امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح کے ایک باب میں کہی ہے کہ سرّ و جہر دونوں مباح ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ممنوع نہیں۔[2] البتہ حافظ ابن حجر نے ان کا تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان ہر دو طریقوں کی اباحت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔اختلاف تو ان میں سے کسی ایک کے مستحب ہونے میں ہے۔[3] 3۔ جانبین کے دلائل کو ذکر کے امیر صنعانی رحمہ اللہ نے ’’سبل السلام‘‘ میں لکھا ہے: ’’وَالْاَقْرَبُ اَنَّہٗ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یَقْرَاُ بِہَا تَارَۃً جَہْرَۃً وَتَارَۃً یُخْفِیْہَا‘‘[4] ’’اور(اس مسئلے میں)سب سے قریب تر بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ کو جہراً پڑھتے اور کبھی سِراً۔‘‘ 4۔ ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘کو بلند آواز سے یا بلا آواز پڑھنے کے سلسلے میں علامہ ابن قیم نے سیرت و سنت کے موضوع پر اپنی بے نظیر کتاب ’’زاد المعاد‘‘ میں لکھا ہے: ’’نبی اکرم ا بلند آواز سے ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھ لیا کرتے تھے،لیکن بلند آواز سے پڑھنے کی نسبت اکثر اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم آہستگی سے پڑھتے تھے۔اس میں شک کی کوئی گنجایش ہی نہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر و حضر میں اور نمازِ پنج گانہ میں سے تمام(جہری)نمازوں میں بلند آواز ہی سے ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھا کرتے ہوتے تو یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاے راشدین اور عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہالیانِ وطن سے اُس عہدِ مبارک میں پوشیدہ رہ جاتی؟یہ بات امحل المحال ہے۔بلکہ مستقل جہراً ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھنے کے قائلین مجمل و غیر مفصل الفاظ اور ضعیف و واہی احادیث سے سہارا لیتے ہیں،
Flag Counter