Maktaba Wahhabi

268 - 738
معلول قرار دینے کی کوشش لا حاصل ہے۔جیسا کہ ’’فتح الباری‘‘ و ’’بلوغ المرام‘‘ میں حافظ ابن حجر نے اور ’’سبل السلام‘‘ میں امیر صنعانی نے،’’المنتقٰی‘‘ میں المجد ابن تیمیہ نے اور ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ میں علامہ عبدالرحمن مبارک پوری نے لکھا ہے۔[1] حضرت اَنس رضی اللہ سے مروی اس حدیث کی متعدد اسانید اور مختلف الفاظ کی تفصیل علامہ زیلعی نے ’’نصب الرایہ‘‘(1/ 326۔332)میں ذکر کر دی ہے۔ 4۔ بسم اللہ کو آہستہ آواز سے پڑھنے پر دلالت کرنے والی ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ بیان کرتے ہیں: ((سَمِعَنِیْ اَبِیْ وَاَنَا فِی الـصّلـٰوۃِ اَقُوْلُ:بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ‘ فَقَالَ لِیْ:اَيْ بُنَیَّ!مُحْدَثٌ ‘ اِیَّاکَ وَالْحَدَثَ،قَالَ:وَلَمْ اَرَ اَحَدًا مِّنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم رَجُلًا کَانَ اَبْغَضَ اِلَیْہِ حَدَثًا فِی الْاِسْلَامِ مِنْہُ‘ فَاِنِّیْ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَمَعَ اَبِیْ بَکْرٍ وَمَعَ عُمَرَ وََمَعَ عُثْمَانَ فَلَمْ اَسْمَعْ اَحَدًا مِّنْہُمْ یَقُوْلُہَا،فَلَا تَقُلْہَا،اِذَا اَنْتَ قَرَأْتَ فَقُلِ﴿الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ))[2] ’’میرے باپ نے مجھے نماز میں(جہراً)’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ پڑھتے سنا تو فرمایا:اے میرے بیٹے!یہ بدعت ہے اور بدعت سے بچو!(کیونکہ)میں نے اسلام میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے زیادہ کسی آدمی کو بھی بدعت سے بغض و نفرت رکھنے والا نہیں دیکھا۔مَیں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان(رضی اللہ عنہم)کے ساتھ نماز پڑھی ہے،ان میں سے کسی کو بھی میں نے جہراً ’’بسم اللّٰه‘‘ پڑھتے نہیں سنا،لہٰذا تو بھی اسے جہراً نہ پڑھ۔ہاں،جب تو قراء ت شروع کرنے لگے تو ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ سے قراء ت شروع کرو۔‘‘ اس حدیث کی سند پر محدثین نے کلام کیا ہے۔خصوصاً ابن عبداللہ بن مغفل کی وجہ سے جن کا نام یزید بیان کیا گیا ہے،انھیں مجہول و غیر معروف بتایا جاتا ہے،لیکن امام شوکانی نے اس حدیث کے
Flag Counter