Maktaba Wahhabi

252 - 738
’’اے اللہ!میں تیرے ساتھ شیطانِ مردود سے پناہ پکڑتا ہوں،اس کے دیوانہ بنانے سے،متکبر بنانے اور شرک کروانے سے(دوسری روایت میں ’’وَشِرْکِہٖ‘‘ کے بجائے ’’وَنَفْثِہِ‘‘ کے الفاظ ہیں)۔‘‘ اس حدیث کی سند کے بارے میں صاحب ’’إرواء الغلیل‘‘ لکھتے ہیں کہ اگر اس میں ایک دمشقی شیخ غیر معروف اور بے نام نہ ہوتا تو اس کی سند صحیح ہوتی۔[1] 5۔ یہ تعوذ حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے مروی ایک حدیث میں بھی مذکور ہے،لیکن اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن عمر بن شیبہ ہے،جس کے بارے میں بعض کبار محدثین نے عدمِ معرفت کا اظہار کیا ہے۔[2] 6۔ اسی صیغے کی چھٹی دلیل ایک صحیح سند والی مرسل روایت ہے جس میں حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو قیام میں فرمایا کرتے تھے: ((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ)) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: ((وَمَا ہَمْزُہٗ وَنَفْخُہٗ وَنَفْثُہٗ؟))’’ ہَمْزُہٗ وَنَفْخُہٗ وَنَفْثُہٗ کے کیا معنی ہیں؟‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَمَّا ہَمْزُہٗ فَہٰذِہِ الْمُوْتَۃُ الَّتِیْ تَاْخُذُ بَنِیْ آدَمَ،وَاَمَّا نَفْخُہٗ فَالْکِبْرُ،وَاَمَّا نَفْثُہٗ فَالشِّعْرُ))[3] ’’شیطان کے ’’ہمز‘‘ سے مراد مرگی و جنون کی ایسی کیفیت ہے جو بنی آدم پر طاری ہو جاتی ہے،اس کے ’’نفخ‘‘ سے مراد تکبر ہے اور ’’نفث‘‘ سے مراد مذموم شعر گوئی پر اُکسانا ہے۔‘‘ 7۔ آخر میں ان تین کلمات کے اضافے والا تعوذ مراسیل ابی داود میں امام حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے،جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات سے تعوذ کیا کرتے تھے: ((اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْثِہٖ وَنَفْخِہٖ))[4]
Flag Counter