Maktaba Wahhabi

220 - 738
’’نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے۔‘‘ 1۔ بہ ظاہر تو یہ صحابی کا قول ہے،لیکن صحابی کا ’’اِنَّ مِنَ السُّنَّۃِ‘‘(یہ سنت ہے)کہنا اس بات کا پتا دیتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث ہے۔[1] 2۔ ’’منتقی الأخبار‘‘ میں علامہ مجد ابن تیمیہ نے اسے مسند احمد اور سنن ابو داود کی طرف منسوب کیا ہے،جس کی شرح میں امام شوکانی نے لکھا ہے کہ یہ حدیث ابو داود کے صرف اس نسخے میں موجود ہے جو ابن الاعرابی کا نسخہ ہے۔ایسے ہی نصب الرایۃ کے حاشیے میں لکھا ہے کہ یہ حدیث ابن داسہ کے نسخے میں بھی ہے۔[2] دوسرے کسی نسخے میں یہ حدیث نہیں ہے۔ 3۔ اسی طرح اس حدیث کو مسند احمد کی طرف مطلقاً منسوب کیا گیا ہے،جبکہ یہ حدیث زوائد مسند احمد میں سے ہے جو امام احمد رحمہ اللہ کے فرزند عبداللہ نے مسند میں شامل کیے تھے۔ ان امور کے باوجود اگر اس حدیث کی سند صحیح یا حسن درجے کی ہوتی اور متن بھی غیر متنازع فیہ ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی۔کسی بھی حدیث کا کسی ایک بھی کتاب میں صحیح سند و متن سے آجانا کافی ہوتا ہے،جبکہ اس روایت کی سند ایسی نہیں،بلکہ محدثینِ کرام نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔چنانچہ امام احمد بن حنبل،یحییٰ بن معین،امام بخاری،امام ابو حاتم اور امام بیہقی جیسے مقتدر علماء رجال نے اس کی سند کے ایک راوی عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی الکوفی کو ضعیف،متروک،مُنْکَرُ الْحَدِیْثِ،لَیْسَ بِشَیْئٍ اور ’’مُتَّفَقٌ عَلٰی ضُعْفِہٖ‘‘ قرار دیا ہے،جیسا کہ نیل الاوطار(2/ 3/ 21)بلوغ الامانی(3/ 1171)،ضعیف سنن ابی داود،المرعاۃ(2/ 301)اور دیگر کتبِ شروح و حدیث میں مذکور ہے۔شارح مسلم امام نووی نے بھی اس راوی کو بالاتفاق ضعیف قرار دیا ہے،جیسا کہ ان کی شرح مسلم(2/ 4/ 115)اور الخلاصہ میں مذکور ہے۔[3] بخاری شریف کی شرح فتح الباری میں بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ والی اس حدیث کی طرف مختصراً اشارہ کیا ہے اور اسے ضعیف کہا ہے۔[4]یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس
Flag Counter