Maktaba Wahhabi

211 - 738
نیچے ہاتھ باندھنا۔ناف سے اوپر اور سینے پر ہاتھ باندھنے والوں کی پہلی دلیل کے طور پر جو حدیث پیش کی گئی ہے،اسے امام ابنِ خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔صحیح ابن خزیمہ کی سند میں ایک راوی ’’مومل بن اسماعیل‘‘ ہے جس کا حافظہ کچھ خراب تھا،لہٰذا اس سند کو تو اس راوی کی وجہ سے ضعیف قرار دیا گیا ہے۔لیکن یہ حدیث چونکہ کئی دیگر اسانید سے بھی مروی ہے اور سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرنے والی دوسری احادیث اس کی شواہد ہیں،لہٰذا کبار محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے،جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ پر اپنی تعلیقات میں علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے کہا ہے۔[1] حضرت العلام مولانا سید بدیع الدین شاہ صاحب راشدی پیر آف جھنڈا رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں جو مومل بن اسماعیل ہے،یہ وہ مومل ہی نہیں ہے جسے تہذیب وغیرہ کتبِ رجال میں ضعیف قرار دیا گیا ہے،بلکہ یہ دوسرا راوی ہے۔اس بات کی تفصیل موصوف کی اس تحقیق و تخریج میں دیکھی جا سکتی ہے جو انھوں نے علامہ محمد حیات سندھی کے رسالے ’’فتح الغفور‘‘ پر ’’التعلیق المنصور‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ ایسے ہی حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’فتح الباري شرح صحیح البخاري‘‘،’’تلخیص الحبیر‘‘،’’الدرایۃ‘‘ اور ’’بلوغ المرام‘‘ میں اور امام نووی نے ’’شرح صحیح مسلم‘‘،’’الخلاصۃ‘‘ اور ’’المجموع شرح المہذب‘‘ میں نقل کیا ہے اور اس کی سند و متن پر کوئی جرح نہیں کی،جس سے پتا چلتا ہے کہ ان کبار محدثین کے یہاں یہ حدیث صحیح یا کم از کم حسن درجے کی ہے اور قابلِ استدلال و حجت بھی ہے۔[2] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نہ صرف یہ کہ اپنی کتب میں اس حدیث کو ذکر کے اس پر جرح نہیں کی،بلکہ ’’فتح الباری‘‘ کے مقدمے میں انھوں نے لکھا ہے کہ میں کسی مسئلے کے اثبات اور اس پر استدلال کے لیے صرف وہی حدیث نقل کروں گا جو صحیح یا کم از کم حسن درجے کی ہو۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے نزدیک ذکر کئی گئی حضرت وائل بن حجر رضی اللہ والی حدیث کم از کم حسن درجے کی ہے۔امام شوکانی رحمہ اللہ جیسے نقاد و مجتہد نے بھی ’’نیل الاوطار‘‘ میں صحیح ابنِ خزیمہ کے اس حدیث کو صحیح کہنے کا ذکر کیا ہے اور ان پر کوئی تعاقب نہیں کیا،بلکہ موافقت کی ہے۔
Flag Counter