عبدالبر رحمہ اللہ کے حوالے سے علامہ زرقانی نے موطا کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ حدیث کے الفاظ نہیں بلکہ امام مالک کے تشریحی الفاظ ہیں۔[1]
البتہ ان الفاظ سے پہلے والے الفاظ ’’وَضْعُ الْیَدَیْنِ اِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فِيْ الصَّلَاۃِ‘‘ حدیث کے الفاظ ہیں۔امام مالک رحمہ اللہ کے تشریحی الفاظ کی تائید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی مرفوع احادیث سے بھی ہوتی ہے،جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث سے پتا چل رہا ہے۔
6۔ ایسے ہی امام مالک نے اپنے موطا میں ایک دوسری حدیث بھی روایت کی ہے،جس سے ان کے تشریحی الفاظ کی تائید ہوتی ہے اور موطا امام مالک والی یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔حضرت سہل بن سعد رضی اللہ فرماتے ہیں:
((کَانَ النَّاسُ یُؤْمَرُوْنَ اَنْ یَّضَعَ الرَّجُلُ الْیَدَ الْیُمْنٰی عَلٰی ذِرَاعِہِ الْیُسْرٰی فِی الصَّلَاۃِ))
’’لوگوں کو یہ حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں ہر آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں بازو کی کلائی پر رکھے۔‘‘
راویِ حدیث امام ابو حازم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((لاَ اَعْلَمُہٗ اِلاَّ یُنَمِّیْ ذٰلِکَ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم))[2]
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ نے اس حدیث کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے۔‘‘
یہ تو تین ائمہ،جمہور اہلِ علم اور ثقہ روایت کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک ہے اور ان کے اسی مسلک کا پتا موطا سے چلتا ہے کہ ہاتھوں کو باندھا جائے۔اب معلوم نہیں ابن القاسم کی ارسال والی روایت کا مصدر و ماخذ کیا ہے اور ہاتھ لٹکا کر نماز پڑھنے والوں کے پاس اپنے اس فعل کی کیا دلیل ہے؟وہ احادیث جو ہم نے ذکر کر دی ہیں اور وہ احادیث جو ہم ذکر کرنے والے ہیں،ان سب کا ہاتھ لٹکا کر نماز پڑھنے والوں کے پاس کیا جواب ہے؟وَاللّٰہُ الْہَادِیْ اِلٰی سَوَائِ السَّبِیْلِ۔
ہاتھ باندھنے پر دلالت کرنے والی کئی اور احادیث بھی منقول ہیں جن میں سے ایک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں:
((إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَبَّرَ عَلٰی جَنَازَۃٍ فَرَفَعَ یَدَیْہِ فِیْ اَوَّلِ تَکْبِیْرَۃٍ،وَوَضَعَ
|