Maktaba Wahhabi

202 - 738
میں بھی یہ ذکر کیا ہے۔امام مالک کے بارے میں اسی روایت یعنی ہاتھ باندھنے کی تائید نہ صرف عام کتبِ حدیث میں وارد احادیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتی ہے،بلکہ خاص امام مالک رحمہ اللہ کی اپنی شہرئہ آفاق کتاب موطا میں وارد بعض احادیث بھی اسی بات کا پتا دیتی ہیں۔چنانچہ موطا امام مالک،’’باب وَضْعِ الْیَدَیْنِ إِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فِيْ الصَّلَاۃِ‘‘ میں اس موضوع کی دو حدیثیں امام صاحب نے روایت کی ہیں۔ 1۔ پہلی حدیث میں امام مالک رحمہ اللہ عبدالکریم بن ابی المخارق بصری رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں: ((مِنْ کَلَامِ النُّبُوَّۃِ اِذَا لَمْ تَسْتَحِ فَافْعَلْ مَا شِئْتَ،وَوَضْعُ الْیَدَیْنِ اِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فِی الصَّلَاۃِ،یَضَعُ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرٰی،وَتَعْجِیْلُ الْفِطْرِ وَالْاِسْتِیْنَائِ بِالسُّحُوْرِ))[1] ’’یہ بات کلامِ نبوت میں سے ہے،(تمام شرائعِ انبیا میں موجود رہی ہے)کہ جب کسی کو پاسِ حیا نہ رہے تو پھر وہ چاہے کچھ بھی کرے(اس کے لیے سب برابر ہے)اور یہ بات بھی کلامِ نبوت میں سے ہے کہ نماز میں ایک ہاتھ کو دوسرے پر باندھا جائے،دائیں کو بائیں پر رکھا جائے اور(غروبِ آفتاب کے بعد)افطاری میں جلدی کی جائے اور سحری کھانے میں تاخیر کی جائے۔(یعنی آدھی رات کو کھانے سے نہ رک جائیں)۔‘‘ 2۔ امام مالک رحمہ اللہ کی روایت کردہ اس حدیث کے جزو اوّل کی تائید حضرت حذیفہ رضی اللہ سے مروی حدیث سے بھی ہوتی ہے،جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اِنَّ مِمَّا اَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَامِ النُّبُوَّۃِ الْاُوْلٰی اِذَا لَمْ تَسْتَحِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ))[2] ’’وہ باتیں جن کو لوگوں نے کلامِ نبوت میں سے حاصل کیا ہے،ان میں سے یہ بات بھی ہے کہ جب تجھے پاسِ حیانہ رہے تو پھر تو چاہے کچھ بھی کرے۔‘‘ 3۔ اب رہا حدیثِ اوّل کا بقیہ حصہ جس میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر باندھنے کا ذکر آیا ہے تو امام مالک کی بیان کردہ اس حدیث کی تائید حضرت ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے مروی اس حدیث
Flag Counter