Maktaba Wahhabi

191 - 738
علاوہ ازیں عورت کے کندھوں تک ہاتھ اٹھانے کی دلیل کے طور پر جو یہ روایت لائی گئی ہے،اس میں تو کندھوں کا ذکر ہی نہیں،بلکہ پستانوں کا لفظ آیا ہے،جبکہ چھاتی تک ہاتھ اٹھانے کا تو کوئی بھی قائل نہیں۔اگر اس سے اپنا نظریہ کشید کرنے کے لیے یہ کہیں کہ چھاتی تک ہاتھ اٹھائے جائیں تو انگلیاں یا کم از کم ان کے پَورے کندھوں کے قریب قریب پہنچ ہی جائیں گے تو بھائی اس کھینچا تانی کی ضرورت ہی کیا ہے؟سیدھی سی بات ہے کہ احادیث میں کندھوں اور کانوں تک ہاتھ اٹھانے کا ذکر آیا ہے اور یہی سنت ہے۔بلاتفریق مرد و زن،جو جس طریقے کو اختیار کر لے جائز ہے اور اسی میں برکت بھی ہے۔البتہ بعض سلف صالحین(مَردوں)کا دستور رہا ہے کہ وہ سینے تک ہاتھ اٹھاتے تھے،جیسا کہ ابو داود میں ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ سینے تک ہاتھ اٹھاتے تھے۔اور ابن جریح کہتے ہیں کہ میں نے حضرت نافع رحمہ اللہ سے پوچھا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کہاں تک ہاتھ اٹھاتے تھے؟اُس مقام پر اشارہ کر کے بتائیے: ((فَاَشَارَ اِلَی الثَّدْیَیْنِ اَوْ اَسْفَلَ مِنْہُمَا)) ’’تو انھوں نے چھاتی(سینے)کی طرف اشارہ کیا یا اس سے نیچے۔‘‘ ان کا یہ عمل چاروں جگہ یعنی تکبیر تحریمہ،رکوع جاتے،رکوع سے سر اٹھاتے اور تیسری رکعت کے لیے اٹھتے اور ہاتھ باندھتے وقت تھا۔البتہ ابو داود ہی میں ضعیف سند سے یہ الفاظ بھی منقول ہیں: ((وَ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّکْعَتَیْنِ یَرْفَعُہُمَا اِلٰی ثَدْیَیْہِ))[1] ’’اور جب وہ تیسری رکعت کے لیے اٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنی چھاتی(سینے)تک اٹھاتے۔‘‘ صحیح احادیث کے مقابلے میں بھلا ایسے آثار کی کیا حیثیت ہوگی؟یہ تو اس مرفوع روایت کے بارے میں ہوا،جبکہ دوسری کوئی مرفوع روایت ہی نہیں لائی گئی۔صرف بعض آثار مروی ہیں،جن کے برعکس صحیح احادیثِ شریفہ کا اطلاق ہوتا ہے جو ہم نے ذکر کی ہیں۔ایسے ہی صحیح سند والا امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا اثر بھی ہے۔اس طرح ان آثار کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔لہٰذا ہم ان کے تذکرے اور اُن پر نقد و تبصرے سے صرفِ نظر کر رہے ہیں۔
Flag Counter