Maktaba Wahhabi

174 - 738
’’جلسۂ استراحت‘‘ کہلاتا ہے۔اس کے بعد دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہوا جائے گا،البتہ اس حدیث کی ایک روایت میں ہے: ((ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَسْتَوِیَ قَائِمًا))[1] ’’پھر سیدھے اٹھ جاؤ،حتی کہ اطمینان سے کھڑے ہو جاؤ۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کی اس معروف حدیث میں تو مطلق قرآن پڑھنے کا ذکر آیا ہے،جبکہ حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ سے مروی حدیث میں قراء تِ قرآن کی تعیین بھی کی گئی ہے۔چنانچہ اُس حدیث کے الفاظ سنن ابو داود میں یوں مروی ہیں: ((ثُمَّ اقْرَأْ بِاُمِّ الْقُرْآنِ وَبِمَا شَائَ اللّٰہُ))[2] ’’پھر تم سورۃ الفاتحہ پڑھو،پھر جو اللہ کو منظور ہو،اس کی قراء ت کرو۔‘‘ جبکہ صحیح ابن حبان اور مسند احمد کے الفاظ ہیں: ((ثُمَّ اقْرَأْ بِاُمِّ الْقُرْآنِ،ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا شِئْتَ))[3] ’’پھر تم سورۃ الفاتحہ پڑھو اور پھر جہاں سے چاہو قرآن پڑھو۔‘‘ یہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یا قولی حدیث ہے،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو پہلی رکعت پڑھنے کی ترکیب و طریقہ بتا کر فرمایا کہ باقی پوری نماز بھی تم ایسے ہی پڑھو۔وہ صحابی نماز کے تفصیلی مسائل سے واقف تھے،لہٰذا ان کے حسبِ حال مختصر انداز اختیار فرمایا۔چونکہ انھوں نے جلدی جلدی نماز پڑھی تھی،لہٰذا اُنھیں تمام ارکانِ نماز کو بالخصوص سکون کے ساتھ ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔اسی حدیث کی رو سے جمہور اہلِ علم نے تمام ارکانِ نماز ادا کرنے میں اطمینان و سکون کو واجب قرار دیا ہے،حتی کہ احناف میں سے امام طحاوی رحمہ اللہ کے کلام سے پتا چلتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی اطمینان واجب ہے۔[4] غرض کہ یہ حدیث ان لوگوں کے لیے درسِ عبرت ہے جو جلدی جلدی نماز پڑھتے ہیں۔قیام و قومہ،رکوع و سجود اور جلسہ و قعدے سے بڑی تیز رفتاری کے ساتھ گزرتے چلے جاتے ہیں۔اس
Flag Counter