Maktaba Wahhabi

165 - 738
ارشاد فرمایا،جس کی بلاغت و اثر انگیزی کا یہ عالم تھا: ((ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُوْنُ،وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوْبُ)) ’’جس سے لوگوں کی آنکھیں اَشک بار ہو گئیں اور ان کے دل دہل گئے۔‘‘ ایک آدمی نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!ایسے لگتا ہے جیسے یہ الوداعی خطبہ یا وعظ ہو؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نصیحت فرمائیں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ،وَاِنْ کَانَ عَبْدًا حَبَشِیًّا،فَاِنَّہٗ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِيْ فَسَیَریٰ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا،فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ،تَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ)) ’’میں تمھیں اللہ کے خوف و خشیتِ الٰہی اور اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ(اپنے امیر کی)سمع و طاعت کرو،اگرچہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا،وہ بہت اختلافات دیکھے گا۔پس تم پر میری سنت اور میرے خلفاے راشدین مہدیین کا طریقہ لازم ہے،اس پر خوب مضبوطی سے جمے رہو۔‘‘ اس بلیغ اور موثر ترین خطبے کے آخر میں یہ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ،فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ،وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ))[1] ’’محدثات و بدعات سے بچ کر رہو،کیونکہ ہر محدث امر بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ یہ حدیث اور خصوصاً اس کے آخری الفاظ،ایسے ہی اس سے پہلے ذکر کی گئی حدیث کے آخری الفاظ ہیں:((وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ))’’اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ لہٰذا کسی بدعت کو بدعتِ حسنہ قرار دینا صحیح نہ ہوگا،بلکہ یہ اِن احادیث کے سراسر خلاف ہے۔بعض سلف صالحین کے کلام میں جو بدعات کا استحسان وارد ہوا ہے،وہ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ کے بقول لغوی بدعات(یا دُنیوی بدعات)کے بارے میں ہے نہ کہ شرعی(یا دینی)بدعات کے بارے میں۔جیسا کہ انھوں نے ’’جامع العلوم والحکم‘‘ میں وضاحت کی ہے۔[2]
Flag Counter