Maktaba Wahhabi

127 - 738
کے سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان یوں قائم کیا ہے: ’’بَابُ اِسْتِقْبَالِ الرَّجُلِ صَاحِبَہٗ اَوْ غَیْرَہٗ فِیْ صَلَاتِہٖ وَہُوَ یُصَلِّیْ‘‘ یعنی نماز پڑھنے کے دوران میں اپنے کسی دوست،ساتھی یا کسی بھی شخص کی طرف منہ کرنے کا بیان۔ اس باب کے ترجمے میں امام صاحب پہلے دو صحابہ کے آثار لائے ہیں جو دونوں ہی ایک دوسرے کے برعکس ہیں۔پھر اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی وہ معروف حدیث لائے ہیں جس میں وہ فرماتی ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جانبِ قبلہ بستر پر لیٹی ہوتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ لیتے تھے۔یہ حدیث تو چونکہ بالتفصیل ذکر کی جا چکی ہے،لہٰذا یہاں اتنے اشارے پر ہی اکتفا کرتے ہیں،جبکہ امام صاحب جو دو آثار لائے ہیں،ان میں سے ایک یہ ہے: ((وَکَرِہَ عُثْمَانُ اَنْ یَّسْتَقْبِلَ الرَّجُلَ وَہُوَ یُصَلِّیْ))[1] ’’حضرت عثمان رضی اللہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ وہ کسی آدمی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں۔‘‘ اس کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ کا یہ اثر مجھے کسی دوسری جگہ نہیں ملا،بلکہ مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کے برعکس ان سے ایک دوسرا اثر مروی ہے،جس میں ان کی عدمِ کراہت مذکور ہے۔[2] البتہ انہی دونوں کتبِ حدیث میں ہلال بن یسار کے طریق سے حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ کے بارے میں مروی ہے کہ انھوں نے کسی آدمی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے پر ڈانٹا۔لہٰذا حافظ عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بات کا احتمال ہے کہ اصل میں عمر رضی اللہ ہی کا نام ہو،جس میں تصحیف واقع ہو جانے سے وہ عثمان بن گئے ہوں۔بہرحال کم از کم ایک صحابی کا اثر تو ایسا ہے جس میں کراہت آئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کراہت والے اثر کے بارے میں لکھا ہے: ’’وَاِنَّمَا ہٰذَا اِذَا اشْتَغَلَ بِہٖ‘‘ ’’یہ تب ہے جب نمازی کے سامنے والے شخص کی وجہ سے نمازی کی توجہ بٹتی ہے۔‘‘ تب تو یہ مکروہ ہے،ورنہ نہیں،کیونکہ جب توجہ بٹنے والی بات نہ ہو تو اس میں کوئی کراہت نہ
Flag Counter