Maktaba Wahhabi

112 - 738
یہی حدیث قدرے مفصل بھی مروی ہے،جس میں مذکور ہے: ((إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ اِذَا خَرَجَ یَوْمَ الْعِیْدِ اَمَرَ بِالْحَرْبَۃِ فَتُوْضَعُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَیُصَلِّیْ اِلَیْہَا وَالنَّاسُ وَرَائَ ہٗ وَکَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِی السَّفَرِ))[1] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن(نماز کے لیے)نکلتے تو برچھی لانے کا حکم فرماتے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ(گاڑ)دی جاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتے تھے۔سفر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔‘‘ اس حدیث میں آگے یہ بھی مذکور ہے: ((فَمِنْ ثَمَّ اتَّخَذَہَا الْاُمَرَائُ)) ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد(خلفاے راشدین اور)امرا بھی وہ برچھی لے جایا کرتے تھے۔‘‘ سنن دارمی اور صحیح ابن حبان میں ’’الحربۃ‘‘ کے بجائے ’’العنزۃ‘‘ ہے،جبکہ دونوں کا معنی تقریباً ایک ہی ہے۔البتہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث پر ایک جگہ ’’بَابُ الصََّلَاۃِ اِلَی الْحَرْبَۃِ‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے،جبکہ اس سے آگے ’’بَابُ الصََّلَاۃِ اِلیَ الْعَنَزَۃِ‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے۔اور اس میں جو دو حدیثیں وارد کی ہیں،ان میں یہی لفظ ’’عنزہ‘‘ ہی آیا ہے،جس سے ان دونوں کے مابین پائے جانے والے فرق کا اندازہ ہوتا ہے جو صرف یہ ہے کہ اُردو میں ایک کو برچھی یا برچھا اور دوسرے کو نیزہ کہہ سکتے ہیں،جیسا کہ ’’مصباح اللغات‘‘ ’’المعجم الوسیط‘‘ اور ’’فتح الباري‘‘ کی تشریحات سے پتا چلتا ہے۔[2] البتہ علامہ وحید الزمان نے اپنی ’’لغات الحدیث‘‘ کی جلد اوّل جز ’’ح‘‘ صفحہ(44)پر ’’حربہ‘‘ کا ترجمہ بھی برچھی ہی کیا ہے اور جلد چہارم جزء ’’ع‘‘ صفحہ(211)پر ’’عنزۃ‘‘ کا ترجمہ بھی برچھی ہی کیا ہے۔ غرض کہ عنزہ یعنی نیزہ یا پھل والے ڈنڈے کے ذکر والی احادیث کی شرح میں قدیم شارحینِ حدیث نے بھی ’’عنزہ‘‘ اور ’’حربہ‘‘ کو علامہ وحید الزماں کی طرح ایک ہی معنی میں لیتے ہوئے تکرارِ تبویب کا اعتراض بھی کیا ہے جن کا جواب دیتے ہوئے حافظ عسقلانی نے لکھا ہے کہ ان دونوں کے مابین کچھ
Flag Counter