Maktaba Wahhabi

90 - 924
اپنے عقیدہ و مسلک کی حقانیت اور اس کی بے جھجھک وضاحت کے بارے میں فاضل گرامی بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا سرور انگیز بیان ملاحظہ فرمائیں : ’’میں نے اپنی تحریروں او ریڈیائی اور ٹیلی ویژنی پروگراموں میں ہمیشہ اپنے مسلک کو ملحوظِ خاطر رکھا اور اس کی خدمت کی، بحمد اللہ ایک لمحے کے لیے بھی اس میں لچک نہیں آنے دی۔ الحمد للہ اس فقیر نے ہر جگہ دھڑلے سے اپنے مسلک کی حقانیت کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ گفتگو اور تحریر میں کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوا۔‘‘(گزر گئی گزران، ص: ۲۶۳) فاضل گرامی بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے اپنے جماعتی اور صحافتی فریضے کو ادا کرنے میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی۔ ۱۹۵۴ء میں جب دار العلوم دیوبند سے بائیس طالب علموں کا اس بنا پر اخراج کر دیا گیا کہ وہ اہلِ حدیث مسلک کے حامل تھے، اس حادثے کے تذکرے میں رقم طراز ہیں : ’’میں اس وقت اخبار ’’الاعتصام‘‘ کا ایڈیٹر تھا، جو جماعت اہلِ حدیث کا ترجمان تھا۔ میرا جماعتی اور صحافتی فرض تھا کہ اس موقع پر اپنی جماعت کے جذبات کی ترجمانی کرتا اور اس خبر سے اہلِ حدیث حضرات کے قلوب و اذہان میں جن تاثرات و عواطف نے کروٹ لی تھی، اس کی وضاحت کرتا، چنانچہ میں نے ۱۹؍ فروری ۱۹۵۴ء کے ’’الاعتصام‘‘ میں ’’دار العلوم دیوبند سے اہلِ حدیث طلبہ کا اخراج‘‘ کے عنوان سے لکھا۔‘‘ اس سے چند روز بعد حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ(مہتمم دارالعلوم۔ دیوبند)کا اہلِ حدیث طلبہ کے اخراج کے بارے میں وضاحتی بیان آیا، وہ ’’بیان ان کے مقام و منزلت سے ہم آہنگ نہ تھا‘‘، ادب و تکریم کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ان کے بیان کا ۲۶؍ مارچ ۱۹۵۴ء کے ’’الاعتصام‘‘ میں تجزیہ کیا۔ مولانا رئیس احمد جعفری ندوی رحمہ اللہ نے دونوں اداریے اپنے ’’ریاض‘‘ میں شائع کیے اور موضوع سے متعلق خود بھی بعنوان ’’دیوبند کس طرف؟ ایں راہ کہ تو می روی بہ ترکستان ست‘‘ اداریہ لکھا، جس کا ایک ایک لفظ قابلِ مطالعہ ہے۔ رقم طراز ہیں : ’’ہمیں یاد ہے کچھ عرصہ ہوا مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ دیوبند تشریف لے گئے تھے، ان کا وہاں شاہانہ استقبال طلبہ اور اساتذہ نے یہ اچھی طرح جانتے ہوئے کیا تھا کہ وہ اہلِ حدیث مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور مولانا اس استقبال کی بڑی خوش گوار یاد لے کر وہاں سے تشریف لائے تھے۔ ’’یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اہلِ حدیث اگر وزیرِ تعلیم ہو تو دیدہ و دل فرش راہ کیے جاتے ہیں اور اگر طالبِ علم ہو تو بہ یک بینی و دو گوش نکال دیا جاتا ہے۔ ع ’’یہ اگر سچ ہے تو ظالم اسے کیا کہتے ہیں ؟‘‘ (بزمِ ارجمنداں ، ص: ۴۲۲۔ ۴۲۵) معاشرتی اقدار و روایات(ایفائے عہد، عدل و انصاف، پردہ نشینی اور عصمت و حشمت وغیرہ)کی پامالی پر
Flag Counter