Maktaba Wahhabi

458 - 924
کرنے سے ہے ۔اگر کوئی قوم سرکشی پر اتر آئی ہے، اگر کوئی ملک اللہ کے احکام کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور اگر وہاں کی آبادی اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہے، مسجدیں ڈھائی جارہی ہیں اور عبادت گاہوں کو منہدم کیا جارہا ہے تو اس ستم گر معاشرے اور ظالم طاقت کے خلاف جہاد کرنا فرض ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ مظلوم کو بچانا، کم زور کی حفاظت کا اہتمام کرنا، مسجدوں اور عبادت گاہوں کو، وہ عبادت گاہیں مسلمانوں کی ہوں یا غیر مسلموں کی، منہدم نہ ہونے دینا، اسلام کے نزدیک ضروری ہے ۔۔۔ اور اوپر قرآن کی جو دو آیتیں درج کی گئی ہیں ، ان میں یہی فرمایا گیا ہے۔ قرآن کی رُو سے جہاد مسلمانوں کا دینی اور روحانی حق ہے، جس سے کبھی دست برداری نہیں ہوسکتی۔ یہ ہمیشہ جاری رہتا ہے، کبھی اللہ کے احکام و قوانین کی تنفیذ کے لیے، کبھی سیاسی اور تمدنی اقدار و حقوق کو قائم کرنے اور قائم رکھنے کے لیے، کبھی معاشرے میں پھیلے ہوئے جھوٹ اور ناروا رسوم کو ختم کرنے کے لیے، لہٰذا کسی کو اس سے گھبرانے اور بھڑکنے کی ضرورت نہیں ۔ برائیاں ختم ہوں گی اور اچھائیاں پھیلیں گی تو اس کا فائدہ صرف مسلمانوں ہی کو نہیں پہنچے گا، غیر مسلم بھی اس سے متمتع ہوں گے، یہ بلا امتیاز مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے باعثِ برکت ہے۔ ایک بے مقصد بحث: جہاد کے متعلق طویل عرصے سے ہمارے ہاں ایک بحث چلی آرہی ہے اور وہ یہ کہ جہاد کا مزاج کیا ہے؟ جارحانہ ہے یا مدافعانہ؟ سر سید مرحوم اور اُن کے رفقائے کرام اسے مدافعانہ قرار دیتے ہیں ، یعنی خاموش بیٹھے رہو، کوئی حرکت نہ کرو، اگر کوئی تم پر حملہ کرے تو محض اپنا دفاع کرو ۔۔۔ یہ بالکل معذرت خواہانہ زاویۂ فکر ہے۔ دوسرے پرجوش علمائے دین اسے جارحانہ ٹھہراتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک جہاد کی تقسیم سراسر غلط، غیر منطقی اور بے مقصد ہے۔ ہم نہ اسے جارحانہ خیال کرتے ہیں نہ مدافعانہ۔ ہم اسے صرف جہاد مانتے ہیں ، جو ایک عزم، ایک قدر، ایک طاقت اور ایک بنیادی عبادت ہے اور قلب و ضمیر کی بیداری کا مظہر! کسی انسان کے توانا و طاقت ور ہونے کی علامت یہی نہیں کہ وہ ضرور کشتی لڑے اور حریف کو چاروں شانے چت گرا دے، بلکہ طاقت ور و توانا ہونا کسی انسان کے لیے بجائے خود ایک مسرت انگیز شے ہے۔ ٹھیک اسی طرح جہاد کے لیے بھی ضروری نہیں کہ اس کے لیے مخالفت و عناد کو بہر صورت بنیاد قرار دیا جائے۔ بس اعلائے کلمۃ اﷲ جس انداز سے بھی ہو سکے اور انسانی معاشرے میں احکامِ باری تعالیٰ کی جس صورت میں بھی ترویج کرنے کی سعی کی جائے، وہ جہاد ہے۔ نہ اس کا تعلق جارحیت سے ہے، نہ مدافعت سے، اس کا تعلق ضرورت اور حالات سے ہے۔ ضرورت جب پیش آجائے اور حالات جب اس کا تقاضا کریں ، جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ ظلم کی بیخ کنی کے لیے کوشاں ہونا اور اس میں مال و جان سے مصروفِ عمل و حرکت رہنا مسلمان کا وظیفۂ حیات قرار پاتا ہے۔ قرآن کا مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ منکرینِ حق سے مقابلے کے لیے تیار ی کرو:
Flag Counter