Maktaba Wahhabi

230 - 924
صاحبِ ’’گزر گئی گزران‘‘ اسحاق بھٹی گزر گئے تحریر: جناب حافظ یوسف سراج۔ لاہور صاحبِ طرز ادیب، خرد افروز خطیب، خاکہ نگاری میں اپنے منفرد اسلوب کے امام، نوکِ قلم اور نوکِ زباں پر تاریخ کے ایک پورے عہد کو جزئیات سمیت تروتازہ رکھنے والا میوزیم اور انسائیکلو پیڈیا، چالیس کے قریب کتابوں کے ممتاز اور منکسر مصنف، متعدد علمی جرائد کے ایڈیٹر اور بعض کے بانی ایڈیٹر، منجھے ہوئے مترجم، ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے آغاز کے مقرر، سادہ اطوار عالم، بے تعصب و بے ریا اور مہرو وفا میں گندھے ہوئے خود دار انسان۔ جی ہاں یہ تھے شگفتہ نگار اور شگفتہ گو مولانا محترم اسحاق بھٹی صاحب، جو ۲۲؍دسمبر ۲۰۱۵ء کو رب کی جوارِ رحمت میں جا بسے۔ کیا قسمت کا دھنی غلام تھے کہ وفاتِ آقا کے مہینے میں پیا دیس سدھار گئے اور اس طرح سے ایک ہزار سے زائد وارثانِ سیرت کی سیرتیں اُجاگر کرنے والا سیرت نگار سیرت ہی کے مہینے میں دارالخلد جا بسا۔ لگ بھگ پچاس ہزار صفحات، دین اور اہلِ دین کی توصیف میں رقم کرنے والا یہ شخص اس جہان سے یوں گزرا ہے کہ علم و ادب کے نام وَروں کو ناصر باغ میں روتا نہیں ، بلکہ بلکتا اور سسکتا چھوڑ گیا ہے۔ احباب و اقران اور لواحقین و پسماندگان ہی کو نہیں ، وہ قلم اور قرطاس کو بھی اپنے فن میں یتیم اور لاوارث چھوڑ گیا ہے۔ اللہ اللہ! غربت کو غیرت اور جراَت کا اسلوب دینے والا، اللہ غنی کے دربار میں کس عاجزانہ اہتمام سے حاضر ہو گیا ہے۔ جنازے میں کیسے کیسے لوگ اسے کندھا دینے، اس کا آخری دیدار کرنے، اس سے اپنا تعلق نبھانے اور اسے اپنی پُر خلوص دعاؤں کے ہار پہنانے آئے تھے۔ یونیورسٹیوں کے ثقہ پروفیسرز، اردو بازار سے کتابوں کے پبلشرز، رسالوں کے مدیران گرامی، ساری زندگی قرآن اور حدیث پڑھانے والے منوّر سینوں اور سفید داڑھیوں والے شیوخ القرآن اور شیوخ الحدیث، متنوّع موضوعات پر محیط ان کی کتابوں کے قارئین، شب و روز قال اللہ وقال الرسول کا وظیفہ کرنے والے دینی مدارس کے طلبا، منہجی رفقا، جماعتوں کے قائدین، اہلِ قلم، اہلِ صحافت اور اہلِ دل، موصوف کے محبت کیش اور نیاز مند، اور پھر جانے کہاں کہاں سے اُمنڈ آنے والے وہ بوڑھے جو اس اکانوے سالہ بابے کی رحلت پر بس روئے جاتے تھے۔ فیا للعجب! ہم دفتر سے جنازے کے لیے نکلے تو مرحوم کی کتابوں میں مرقوم لطیفے یاد کرتے جاتے تھے، پھر وہاں مگر
Flag Counter