Maktaba Wahhabi

119 - 924
ازیں کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان اوصاف کے حاملِ دین کے سوانح حیات ان کے کسی معروف ہم مسلک عالم نے کیوں نہیں لکھے؟(نقوش عظمتِ رفتہ، ص: ۳۱۴) ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری حفظہ اللہ نے مولانا سندھی رحمہ اللہ کے حالات و افکار پر کتاب شائع کر دی ہے۔(عراقی) 14۔مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ(م، ۲۳؍ فروری ۱۹۶۲ء): مولانا احمد علی لاہوری اور مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہما اللہ کے باہمی تعلقات بڑے پرانے اور گہرے تھے۔ دونوں بزرگ ایک دوسرے کی انتہائی تکریم کرتے تھے۔ مجھے اس بات کا پورا علم اور احساس تھا۔ مولانا غزنوی رحمہ اللہ برداشت نہ کرتے تھے کہ مولانا احمد علی رحمہ اللہ کے خلاف کوئی لفظ بھی کہا جائے۔ مولانا مرحوم پاکیزہ فکر اور صاف ذہن کے مالک تھے اور مسلکی تعصب سے پاک، اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ خود اپنا بہت بڑا حلقہ ارادت و عقیدت رکھنے کے باوصف عمر بھر پہلے حضرت مولانا عبدالواحد غزنوی مرحوم اور ان کے بعد مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کی اقتدا میں لاہور کے منٹو پارک میں عیدین کی نماز ادا فرماتے رہے۔ ہمیشہ صفِ اول میں امام کے پیچھے جا کر بیٹھ جاتے اور پورا خطبہ سننے کے بعد وہاں سے اٹھتے۔(نقوشِ عظمتِ رفتہ۔ ص: ۳۷۵، ۳۷۷) 15۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ(م: ۲۱ اگست ۱۹۶۱ءء): (۱)۔ حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نامور خطیب، مبلغ اور مقرر تھے۔ اور اپنے گو نا گوں کمالات کی وجہ سے لوگوں میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ صف اوّل میں جگہ پاتے تھے۔ ان کی تقریر میں شیر کی گرج، خطابت میں دریا کی روانی اور تنقید میں تلوار کی کاٹ تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان میں ایک اور خصوصیت بھی تھی۔ ان کی زبان کی جنبش میں پھولوں کی مہک اور گلاب کی خوشبو بھی رچی ہوئی تھی۔ (۲)۔ شاہ جی نرم گفتار بھی تھے اور بدرجہ غایت تیز کلام بھی۔ انگریزی حکومت کے خلاف لب کشائی کرتے تو زبان آگ اگلنے لگتی، توحید و سنت کے موضوع پر وعظ کہتے تو لہجہ بدل جاتا اور نرمی و ملائمت کا پیکر شیریں بن جاتے۔ وہ سحر طراز ادیب اور شعلہ بیان مقرر تھے۔ (3)۔ شاہ جی رحمہ اللہ نے جگرداری کے ساتھ انگریز سے ٹکر لی، بہادری اور حوصلے کے ساتھ قید و بند کی سختیوں کو جھیلا اور جراَت و بے باکی سے حریف طاقتوں کا مقابلہ کیا۔ ان کی عزیمت ان کی عظمت کا پتا دیتی ہے۔ ان کا ایثار، ان کی بلندی کی نشان دہی کرتا ہے اور ان کی درویشی ان کی رفعت کو اُجاگر کرتی ہے۔(نقوشِ عظمتِ رفتہ، ص :۴۰۵، ۴۰۶)
Flag Counter