Maktaba Wahhabi

723 - 924
لسان القرآن، سیرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (مترجم)جیسی تاریخی کتب پڑھ کر ان کے لیے دل سے دعائیں نکلیں ۔ میری ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں ، بہت شفقت فرماتے تھے۔ ہر دفعہ یہ بات نوٹ کی گئی کہ چہرے پر ہمیشہ پر وقار مسکراہٹ اور شگفتگی نظر آئی۔ موصوف علم کا پہاڑ مگر عاجزی کا پیکر تھے۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ، لیکن ان کی یادیں رگ و ریشے میں موجود رہیں گی۔ ان کی رحلت سے جماعت اہلِ حدیث ایک بڑے نابغہ عصر سے محروم ہو گئی ہے۔ ربِ جلیل کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ذات حق مولانا کی لغزشوں سے درگزر اور حسنات کو قبول فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عنایت فرمائے۔ آمین 9۔قاری محمد یعقوب شیخ(جنرل سیکرٹری: تحریک حرمتِ رسول پاکستان): افکارِ محدثین کا داعیِ جلیل موت تو سب کو آنی ہے، لیکن بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ جن کے دم قدم سے علومِ نبوت کا وقار قائم رہتا ہے۔ ان کی رحلت سے ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ مستقبل میں اس کے پُر ہونے کی کوئی شکل نظر نہیں آتی۔ مؤرخِ اسلام مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کا شمار بھی ان ہی جامع الکمالات ہستیوں میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان تمام اوصاف سے مزین فرمایا تھا، جو فتنوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کے لیے درکار تھا۔ مولانا جماعت اہلِ حدیث کا عظیم سرمایہ تھے۔ اہلِ حدیث کی تمام جماعتوں سے برابر شفقت و محبت کا سلوک فرماتے تھے۔ بفضل اللہ مجھے ان کے نمازِ جنازہ میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ دیگر قائدین جماعت و ہزاروں کارکنان نے بھی اس میں شمولیت کی۔ میں یہ بات لکھتے ہوئے بڑی سعادت محسوس کر رہا ہوں کہ مولانا مرحوم کی وفات کے بعد جنازے کی تیاری تک اور پھر اسے جنازہ گاہ میں لانے تک کے تمام تر انتظامات میں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان اور جماعۃ الدعوۃ پاکستان کی کاوشیں مثالیں ہیں ۔ بلاشبہہ مولانا نے اپنی علمی، ادبی، صحافتی صلاحیت و استعداد، قابلیت اور لیاقت کو عقیدۂ توحید و سنت کی ترویج کے لیے وقف کر دیا تھا۔ انھوں نے علمائے حدیث اور فکرِ محدثین پر درجنوں ضخیم تاریخی کتب تصنیف کیں ۔ برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش، تذکرہ قاضی محمدسلیمان منصور پوری رحمہ اللہ ، برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد، گزر گئی گزران، برصغیر میں اہلِ حدیث کی سرگزشت، لسان القرآن، تذکرہ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ ایسی کتب منصہ شہود پر آئیں ، جنھیں پڑھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ ایک فرد نے اتنا وقیع قسم کا کام کیا ہے۔ انھوں نے اپنی کتب میں جہاں جنوبی پنجاب کے دیگر شہروں کے علمائے کرام کے حالات و سوانح بیان کیے، وہاں بطور خاص میرے آبائی شہر احمد پور شرقیہ کے علمائے حدیث کی تاریخ اور افکار بھی احاطہ تحریر میں لے آئے۔ ذہانت کے باعث انھیں پرانی تاریخ ازبر تھی۔ معروف علمائے کرام ان کی خدمت میں آکر اپنے بزرگوں کے حالات اور علمی خدمات کے متعلق استفسار کرتے۔ ملک کے بعض نامی قلمکاروں کو انھوں نے قلم پکڑنا سکھایا۔ ان کی وفات سے اردو دینی ادب و صحافت میں نظریاتی ادارت کا وہ چراغ
Flag Counter