Maktaba Wahhabi

612 - 924
انگریزی علاقوں میں اکالیوں نے مسلمانوں کے قافلوں پر حملے کیے اور انھیں شدید مالی و جانی نقصان سے دو چار کیا۔ بہر حال تقسیم کے وقت مسلمانوں کے لیے مولانا مرحوم کی بے پناہ سیاسی خدمات ہیں ، جنھیں کسی صورت بھلایا نہیں جاسکتا۔ برصغیر کے اس رجلِ رشید نے ۲۲؍ فروری ۱۹۵۸ء(۲؍ شعبان ۱۳۷۷ھ)کو جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات اپنی سرکاری قیام گاہ(واقع کنگ ایڈورڈ روڈ نئی دہلی)میں تقریباً ستر سال کی عمر میں وفات پائی۔ نمازِ جنازہ حضرت مولانا احمد سعید دہلوی رحمہ اللہ نے پڑھائی۔ اللھم اغفرلہ و ارحمہ وعافہ و اعف عنہ و أکرم نزلہ و وسع مدخلہ و أدخلہ جنۃ الفردوس۔ آمین 12۔مشفق خواجہ رحمہ اللہ(وفات: ۲۱؍ فروری ۲۰۰۵ء): اردو ادب کے ایک بڑے محقق، نقاد اور کالم نویس مشفق خواجہ کا اصل نام خواجہ عبدالحی تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں دورِ حاضر کے جن ادیبوں نے اردو ادب میں دانش وری کی روایت کو فروغ دیا ہے، ان میں مشفق خواجہ کا نام بہت اہم ہے۔ تنقید و تحقیق کے باب میں ان کی تحریریں نہایت باکمال ہیں ۔ ان کی تمام زندگی محض علم سے عبارت رہی۔ خواجہ صاحب کے ادبی کارہائے نمایاں کا جائزہ ان چند سطور میں نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے تحقیقی مقالے درکار ہیں ۔ آپ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۳۵ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ آ پ کے والدگرامی خواجہ عبدالحی عربی ،فارسی،اردو اورانگریزی کے ممتاز عالم دین تھے۔ اسلامیات اور اقبالیات ان کا اہم موضوع تھا ۔انھوں نے متعددکتب تصنیف کیں ۔ وہ لاہور کے قدیم باشندے تھے اور علم و فضل کی نعمت سے بہرہ ور تھے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے ان کی حیات و خدمات اور افکار کے متعلق ایک خصوصی مضمون تحریر کیا تھا، جو اُن کی کتاب ’’نقوش عظمتِ رفتہ‘‘ کے صفحہ ۴۱۵ سے ۴۴۵ تک پھیلا ہوا ہے، شناورانِ علم و ادب کے لیے یہ مضمون بڑے خاصے کی چیز ہے۔ مشفق خواجہ رحمہ اللہ نے گھر کے علمی ماحول میں دینی و ادبی تربیت حاصل کی۔ انھوں نے ۱۹۵۲ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ جب وہ کراچی یونیورسٹی میں ایم اے کے طالب علم تھے تو انھوں نے اپنے دوست اور اردو کے معروف شاعر ابن انشا کے ساتھ مل کر جامعہ کا پہلا اردو شمارہ مرتب کیا، جو نہایت شان کے ساتھ شائع ہوا۔ موصوف بابائے اردو مولوی عبدالحق کی نگاہوں میں آگئے اور ان کے ادارہ ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کے سٹاف میں شامل کر لیے گئے۔ ۱۹۷۳ء تک ان کا اس ادارے سے تعلق رہا۔ اس دوران انجمن کے نامور جریدے ’’اردو‘‘ اور ’’قومی زبان‘‘ میں بطور مدیر ادارتی نیز اس کے انتظامی امور بھی انجام دیتے رہے۔ صحیفہ ’’لاہور‘‘ میں بھی طویل عرصہ لکھتے رہے۔ خواجہ صاحب مرحوم بنیادی طور پر ایک شاعر تھے، لیکن انھوں نے تحقیق و تنقید میں اپنا نام پیدا کیا۔ انھوں نے گاہے بہ گاہے معرکے کے مقالات تحریر کیے، جو مختلف ادبی رسائل میں شائع ہو تے رہے۔ ۱۹۹۱ء میں انھوں نے ’’تحقیق نامہ‘‘ کے نام سے مقالات کا مجموعہ شائع کیا۔ کراچی کے ایک ہفت روزہ میں ’’خانہ بگوش‘‘ کے ایک قلمی نام
Flag Counter