Maktaba Wahhabi

737 - 924
کرنے کے لیے ایک تحریر ارسال کر رہا ہوں ، ممکن ہے اس میں کوئی مفید بات نظر آئے۔ باقی ہر طرح خیریت ہے۔ دعاگو میاں عبدالرحیم اظہر الکریمی ڈیروی ۱۸؍ جنوری ۲۰۱۶ء 3۔مکرمی و محترمی جناب سعید احمد بھٹی حفظہ اللہ : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! مزاج شریف! آپ کے برادرِ گرامی برصغیر پاک و ہند کے مایہ ناز مورخ و فقیہ، ممتاز عالمِ دین مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے سانحہ ارتحال کی خبر نہ صرف جماعت اہلِ حدیث پاکستان بلکہ دنیا کے گوشے گوشے میں بسنے والے مسلکِ سلف سے وابستہ ہر فرد و بشر پر بجلی بن کر گری اور عالمی سطح پر جماعتی، علمی و ادبی حلقوں میں غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی۔ ان کی وفات جماعت و ملت اور علمی و ادبی دنیا کا عظیم خسارہ ہے، اس دورِ قحط الرجال میں ایسی عبقری و نابغہ روزگار شخصیت کا دنیا سے رخصت ہو جانا اُمتِ مسلمہ کے لیے کسی بڑی مصیبت سے کم نہیں ، نیز ان کے سانحہ ارتحال سے ایسا علمی خلا واقع ہو گیا ہے جس کا پُر ہونا بظاہر بڑا ہی مشکل نظر آتا ہے۔ علمی، دینی، دعوتی، سماجی، سیاسی، صحافتی نیز تصنیفی و تالیفی جملہ میدانوں میں ان کی خدمات ممتاز اور بے مثال ہیں ۔ آزادیِ تحریر و تقریر کی تحریک میں ان کی فعال شمولیت اور گرفتار ہو کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جانا ان کی مجاہدانہ شخصیت کا پتا دیتا ہے۔ وقت کے تمام علمائے کبار و علمی شخصیاتِ عظام سے ان کے مراسم اور ان سے بھرپور استفادہ ان کے علمی شوق و ذوق کا غماز ہے۔ پون صدی پر محیط موصوف کی سیر و سوانح پر مشتمل تصنیفی و تالیفی خدمات اور پچاس ہزار سے زائد صفحات پر پھیلا ہوا علمی و ادبی و تاریخی اثاثہ ان کا ایسا ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے، جس کی ہندوستان کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ وہ ایک خاکہ نگار بھی تھے اور صاحبِ طرز انشائیہ نگار بھی۔ چنانچہ انھیں ملک و بیرون ملک علمی و ادبی حلقوں میں لاجواب پذیرائی حاصل ہوئی۔ سیر و سوانح پر آپ کو ایسا ملکہ رب کائنات نے ودیعت کیا تھا کہ جس شخصیت پر لکھتے، اس کا پورا سراپا قاری کے سامنے رکھ دیتے۔ زبان سلیس اور اسلوب ادیبانہ تھا۔ حافظے کی دولت سے اللہ نے آپ کو خوب نوازا تھا۔ پوری زندگی اپنے زاویۂ فکر کے مطابق حرکت و عمل کے مختلف میدانوں میں مصروفِ تگ و تاز رہے۔ آپ اپنی سیر و سوانح اور تاریخی تصنیفات کی بدولت علمی حلقوں میں مورخِ عصر کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں ۔ ان کی شہرۂ آفاق کتاب ’’فقہائے ہند‘‘ کے علاوہ نقوشِ عظمتِ رفتہ، بزمِ ارجمنداں ، گلستانِ حدیث، دبستانِ حدیث، چمنستانِ حدیث اور برصغیر کے اہلِ حدیث خدّامِ قرآن وغیرہ ان کی شاہکار تصنیفات ہیں ، جن میں انھوں نے ہند و پاک کے مشاہیر علما و شخصیات کے سوانحی خاکے اور ان کے کارناموں سے ہر عام و خاص کو روشناس کرایا۔ ان کا یہ اہم کام علمائے عصر کی علمی تاریخ میں ناقابلِ فراموش اضافہ ہے۔
Flag Counter