Maktaba Wahhabi

717 - 924
تعزیتی پیغامات وہ اک شخص تھا جس سے تھی بوئے خوئے محفل اب مے کدہ ویراں ہے، بے قرار ہیں رندانِ محفل مؤرخِ اسلام مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کا اس دارِ فانی سے ابدی دنیا کی طرف کوچ کر جانا پاکستان کی علمی و ادبی دنیا کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان تھا۔ ان کی دینی و علمی اور تحقیقی و اصلاحی خدمات اتنی ہیں کہ جس کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ ان کی وسیع علمی خدمات کا شمار کرنا خاصا دشوار کام ہے۔ تحقیق، تنقید، لسانیات، تاریخ، تدوین و ادارت، تعلیم و ادب اور دیگر کئی حوالے انھیں اپنے معاصرین میں ممتاز کرتے ہیں ۔ مولانا کے حلقۂ ارادت و محبت میں شامل لوگ ان کی مختلف جہات کے متعلق لکھ رہے ہیں ، جس سے ان کی شخصی اور فکری دونوں پہلوؤں کا احاطہ ہو رہا ہے، جس کا اندازہ اس ارمغان سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جماعت اہلِ حدیث سے وابستہ بعض مفکرین، تنظیمی اور تحریکی راہنما، ادبی اور تبلیغی شخصیات اپنی سخت مصروفیت کی وجہ سے مولانا رحمہ اللہ کے حوالے سے تفصیل سے کوئی مضمون نہیں لکھ سکے۔ تاہم انھوں نے میری درخواست پر خراجِ عقیدت پر مبنی اپنے تعزیتی تاثرات پیش کیے، جنھیں مرتب کر کے یہاں درج کیا جا رہا ہے۔ 1۔سینیٹر پروفیسر ساجد میر(امیر مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان): عظمتِ اسلاف کے نقوش کا محافظ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ میرے صرف بزرگ ہی نہیں میری مراد بھی تھے۔ ان کی ذات علم و عمل اور اخلاص و روحانیت کا حسین امتزاج تھی۔ افسوس کہ وہ متاع کارواں جاتا رہا۔ ان کی زندگی رضائے الٰہی کی جستجو میں گزری۔ بلاشبہہ وہ اس زمانے کے عظیم مورخ تھے۔ انھوں نے متعدد کتابیں لکھ کر برصغیر پاک و ہند کے اہلِ حدیث مکتبِ فکر کی ایک شاندار تاریخ مرتب کر دی اور ثابت کر دیا کہ اہلِ حدیث ہی وہ پر عزیمت گروہ ہے جس نے قال اللہ و قال الرسول کی آبیاری میں اپنی زندگیاں تج کر دیں ۔ ان کی کتابوں میں علمائے حدیث کے علاوہ دیگر جماعتوں کے علمی، ادبی اور سیاسی حضرات کے تذکار بھی شامل ہیں ۔ انھوں نے ذاتی حیثیت میں جو علمی خدمات سر انجام دیں ، یقینا یہ غیر معمولی کارنامہ ہے۔ ان کے بے پناہ تصنیفی و تالیفی کام کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ایک ادارہ بن کر کام کیا۔ اگرچہ انھوں نے ایک عرصہ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ لاہور میں بہ حیثیتِ ریسرچ اسکالر نمایاں کام کیا، لیکن
Flag Counter