Maktaba Wahhabi

470 - 924
شہروں اور گلیوں میں ہندوؤں کے نام تو بدل دیے اور انھیں مسلمان بنا دیا۔ کرشن نگر کو اسلام پورہ کہنا شروع کر دیا، لیکن قلعہ گجر سنگھ اور قلعہ لچھمن سنگھ کے نام کیوں نہیں بدلے؟ لائل پور کی تاریخ بگاڑ کر اسے فیصل آباد بنا دیا گیا، لیکن ٹوبہ ٹیک سنگھ کو کیوں برقرار رکھا گیا؟ آخر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آزادیِ ہند کی حامی مسلم صحافت اخلاق کے ساتھ ایک مطمحِ نظر رکھتی تھی اور تحریکِ پاکستان سے تعلق رکھنے والی مسلم صحافت بھی اپنے نقطہ فکر میں بالکل صحیح سمت پر گامزن تھی۔ ان دونوں صحافتی گروہوں کا اپنا اپنا کردار تھا، جو وہ بربنائے خلوص ادا کر رہے تھے۔ میں اس کی ایک مثال عرض کرتا ہوں ۔ ۱۹۴۲ء میں جب گاندھی جی پونا کے آغا خان محل میں نظر بند تھے، اس وقت راج گوپال اچاریہ کی کوشش سے گاندھی جناح ملاقات کا اہتمام ہوا تھا۔ یہ ملاقات کئی دن جاری رہی تھی۔ ایک دن جناح صاحب نے اخبار نویسوں کے سوالات کا جوابات دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ آزادی ہند کی تحریک بالکل صحیح ہے۔ ملک آزاد ہوگا تو پاکستان معرضِ وجود میں آئے گا۔ اس گزارش سے میرا مدعا یہ ہے کہ تحریک آزادیِ ہند اور تحریکِ پاکستان میں نتیجے کے اعتبار سے کوئی خاص تضاد نہیں تھا، کیوں کہ قیامِ پاکستان کا سلسلہ آزادیِ ملک کے ساتھ وابستہ تھا۔‘‘ 5۔ پنجاب کا لکھوی خاندان (۱۷۲۰ء سے ۲۰۱۴ء تک) لکھوی خاندان تحریکِ اہلِ حدیث میں ایک روشن علمی تاریخ کا امین ہے۔ دیکھیں اس کے اکابر و اصاغر کا تذکرئہ دلنشیں مولانا بھٹی رحمہ اللہ کے قلم سے: ’’پنجاب کے اہلِ حدیث علمی خاندانوں میں لکھوی خاندان سب سے قدیم خاندان ہے۔ اس خاندان کے اکابر کا تعلق ضلع قصور کی ایک بستی ’’ڈھنگ شاہ‘‘ سے تھا۔ پھر حالات نے ایسا رُخ اختیار کیا کہ ان لوگوں نے وہاں کی سکونت ترک کر دی اور اُن کے ایک بزرگ، جن کا نام حافظ احمد تھا، وہ آج سے کم و بیش تین سو سال بیشتر تقریباً ۱۷۲۰ء میں ضلع فیروزپور کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’’لکھو کے‘‘ میں جابسے۔ حافظ احمد نے اس وقت کے حالات کے مطابق وہاں ایک دینی مدرسہ قائم کیا اور بچوں کو تعلیم دینا شروع کی۔ علم کی اوّلین کہکشاں تھی، جو اس گاؤں کی فضا پر نمودار ہوئی۔ ۱۷۴۳ ء کے آگے پیچھے حافظ احمد کے گھر بیٹا پیدا ہوا، جس کانام بارک اللہ رکھا گیا۔ بارک اللہ نے عربی اور فارسی کی تعلیم اپنے والد مکرم سے حاصل کی۔ قرآن مجید بھی انہی سے حفظ کیا۔ اس وقت دہلی میں شیخ غلام علی شاہ صاحب کا سلسلۂ فیض جاری ہوا، حافظ بارک اللہ لکھوی دہلی کو روانہ ہوئے اور شاہ صاحب ممدوح کی خدمت میں حاضری دی اور ان سے اخذِ فیض کیا۔ دہلی کے بعض دیگر علما سے بھی مستفید ہوئے۔ پھر واپس اپنے وطن لکھو کے آئے
Flag Counter