Maktaba Wahhabi

262 - 924
رفتید ولے نہ از دلِ ما تحریر: جناب مولانا برق التوحیدی۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ اکثر اوقات خوشی اور غمی کے مواقع پر کچھ ایسے الفاظ کا استعمال ہوتا ہے، جن کا حقیقت کے بجائے زیادہ تعلق عقیدت سے ہوتا ہے اور کم ہی ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ جس کے متعلق ان الفاظ کا انتخاب ہوا ہے، وہ حقیقت میں بھی ان کا مصداق و مظہر ہے۔ مثلاً کسی فوت ہونے والے کے حق میں عقیدت مند کہتے ہیں کہ وہ اپنی ذات میں انجمن تھا یا کہ وہ صاحبِ طرز ادیب و خطیب تھا، ایسی صورتحال میں راقم الحروف نے بہت کم مرحومین کو ایسا پایا ہے کہ ان کے متعلق جن الفاظ و القاب سے خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے، وہ اس کے حقیقی مصداق و مظہر بھی ہوں ۔ ایسے کم یاب حضرات گرامی قدر میں ایک ہمارے ممدوح مرحوم حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب بھی تھے۔ راقم الحروف کو حضرت ممدوح مرحوم سے شناسائی تقریباً پینتیس سال سے تھی، پہلے غائبانہ تعارف ہوا، جو بعد ازاں دوستی میں بدلتا گیا۔ دوستی کا لفظ محض ایک تعبیر ہے، ورنہ ہمیں ان سے نسبتِ تلمذ ہے کہ ان سے جو کچھ ان کی صحبت میں بیٹھ کر سیکھا، وہ رسمی تعلیم سے کہیں بڑھ کر ہے، بلکہ شاید رسمی تعلیم سے حاصل ہی نہ ہوتا، پھر وہ جس قدر ہم سے عمرِ عزیز میں کہیں بڑے تھے، اس سے کہیں مقام و مرتبہ اور عظمت و رفعت میں بلند تھے اور تفاوت ظاہر و باطن اتنا کہ چہ نسبت خاک را بعالم پاک۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو جن علمی و عملی خوبیوں سے نوازا تھا اور علمِ اسلاف سے جس طرح ان کے عمل و کردار کو صیقل و مجلیٰ کیا تھا، اس سے ان کی شخصیت میں سب کچھ تھا، مگر شخصیت بننے کا داعیہ نہ تھا، یہی وجہ ہے وہ تواضع و انکساری اور سادگی و بے تکلفی کے ساتھ متانت و وقار کا حسین مرقع تھے، صرف یہی نہیں کہ وہ اپنے سے بڑوں کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے، بلکہ جو بھی کسی اعتبار سے کسی کے ہاں بھی بڑا ہوتا وہ ’’أنزلوا الناس منازلھم‘‘ کے تحت اسے احترام دیتے۔ یہ ایک ایسی خوبی تھی جس نے مرحوم ممدو ح کو اپنے بہت سے معاصرین، بلکہ سابقین سے بھی ممتاز کر رکھا تھا، ان کی مجلسوں میں بیٹھ کر فیض یاب ہونے والا یا ان کی کتب سے استفادہ کرنے والا یقینا اس کا احساس کرے گا کہ وہ دوسروں کا تذکرہ کس اکرام و احترام سے کرتے ہیں ۔ آج کے پر فتن دور میں جہاں بڑوں کی پگڑی اچھال کر بڑا بننے کا فن عام ہے، وہاں ممدوح مرحوم کی لغت میں ایسا کوئی لفظ نہیں ملتا، جس سے کسی کی
Flag Counter