Maktaba Wahhabi

726 - 924
علمی خدمات پر یونیورسٹی اور جامعات کے طلبا ایم۔ اے اور پی۔ ایچ۔ ڈی کے مقالے لکھ رہے ہیں ۔ برصغیر پاک و ہند کے بے شمار مجلات و رسائل میں شائع ہونے والی جن کی تحریریں اردو دنیا کے چپے چپے میں پہنچ رہی ہیں ۔ حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا سیال قلم ۹۰ برس کی عمر میں بھی مضامینِ نو کے انبار لگاتا رہا۔ وہ آخری عمر میں بھی علم و تاریخ کی آبرو بنے رہے۔ آپ صحیح معنوں میں مورخِ اہلِ حدیث اور ممتاز تذکرہ نویس تھے۔ ان کے اچانک حادثہ وفات پر دل غمگین ہے۔ لیکن ہم اللہ کی قضا پر راضی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور جماعت میں ان کا علمی جانشین پیدا فرمادے۔ آمین 13۔جناب مولانا حمیداللہ اعوان سدید(قلعہ میہاں سنگھ، گوجرانوالہ): فکر و نظر کا چراغ مورخِ اسلام مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تاریخِ اہلِ حدیث کا ایک معتبر حوالہ اور قابلِ قدر نام تھے۔ نامعلوم ان کی شخصیت میں کون سی کشش تھی کہ ان کی طرف دل کھنچا چلا جاتا تھا۔ موصوف راسخ الفکر اہلِ حدیث تھے۔ اعتدال پسندی ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ اصل میں تو ان کے استاذ مولانا حافظ محمد گوندلوی، شیخ الحدیث مولانا محمداسماعیل سلفی رحمہما اللہ و دیگر شیوخ حضرات معتدل و متوازن تھے۔ جن کے علم و عمل کے اثرات مولانا مرحوم کی زندگی پر نمایاں تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا اور اہم حصہ مسلسل تحریر و مطالعے میں صَرف کیا۔ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کے دینی، علمی، سیاسی، سماجی، تعلیمی اور تدریسی حالات کو بڑے قریب سے دیکھا۔ مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمدداود غزنوی، مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہم اللہ ایسے نامور علمائے کرام سے ملاقاتیں کیں ۔ ان کے افکار و خطبات سماعت کیے۔ ایک صدی سے کچھ کم عرصہ ملک و ملت کے اقدار و روایات کا مشاہدہ کیا اور اپنے تمام مشاہدات کی روشنی میں فکر بسیط کے ساتھ ایک مخصوص دائرہ اپنے لیے منتخب کیا۔ جس کا اندازہ لگانے کے لیے ان کی خود نوشت سوانح عمری ’’گزر گئی گزران‘‘ کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔ مولانا نے ہمارے خاندان کے مشہور ومعروف بزرگ حضرت مولانا غلام رسول قلعوی رحمہ اللہ(المتوفی ۴؍ مارچ ۱۸۷۴ء )کے تذکرے پر مشتمل ۵۲۸ صفحات(اشاعت: فروری ۲۰۱۲ء)کی کتاب لکھی تھی، جس سے ان کی ہمارے قدیم بزرگوں سے علمی مراسم اور خاندان کے اصاغر سے شفقت و محبت کا واضح اظہار ہوتاہے۔ اس کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر وہ ہمارے علاقے قلعہ اسلام(قلعہ میہاں سنگھ)تشریف لائے۔ خصوصی خطاب اور دعا بھی فرمائی تھی۔ ان کی تحریر اور تقریر دونوں لطافتوں کا حسین مرقع ہوتی تھی۔ علم، فطانت، ذہانت، حاضر جوابی، حق گوئی اور اکابرِ جماعت سے اونچی نسبتوں کے باوجود تفاخر کا کوئی نشان ان کی زندگی میں نہیں تھا۔ خشکی تو ان سے کوسوں دور تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی علمی اور دعوتی خدمات کو قبول فرمائے۔ ان کے درجات بلند کرے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
Flag Counter