Maktaba Wahhabi

273 - 924
آہ! تُجھ سا لاؤں کہاں سے؟ تحریر: جناب محمد سلیم چنیوٹی۔ لاہور مخدوم گرامی مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ خریطۂ صحافت کے ایک ایسے روشن چراغ ہیں کہ جن کے نقشِ قدم کئی ایک لکھاریوں کے لیے مشعلِ راہ ہی نہیں ، بلکہ ان کے لیے حوصلہ افزا بھی ہیں کہ ساری زندگی جس نے مطالعہ ہی کیا اور پھر اپنے ذہن رسا کے ذریعے قارئین کو مستفید کیا۔ حضرت مرحوم رحمہ اللہ نہ صرف جماعت اہلِ حدیث کے اکابر کے حالات و واقعات کو لکھتے تھے، بلکہ ملک و بیرون ملک کے کئی راہنماؤں ، لیڈروں ، سیاست دانوں ، صحافیوں ، لکھاریوں اور گوشہ نشینوں سے ملاقات بھی کرتے تھے۔ وہ ایک جہاں دیدہ اور ملنسار شخصیت تھے۔ حضرت مرحوم جب عالمِ جوانی میں تھے تو مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کی صحافت و خطابت کا سورج عروج پر تھا۔ مولانا آزاد ایک منجھے ہوئے سیاستدان، دانشور اور میدانِ خطابت کے شہسوار تھے۔ حضرت بھٹی صاحب، مولانا ابو الکلام آزاد سے بڑے متاثر تھے۔ آزاد رحمہ اللہ کا اثر ان کے ذہن و طبیعت پر بہت زیادہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے اپنی مونچھیں اور ڈاڑھی کا سٹائل ایک طویل عرصے تک انہی جیسا رکھا۔ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا اور رکھ رکھاؤ بھی ایک خاصے کی چیز رہی۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ جیسی عظیم شخصیت سے ہم ایک طویل عرصہ مستفید رہے اور ان کی صحبتِ فیض اثر سے ہمارا دل شرابور رہا۔ راقم کی سب سے پہلی ملاقات ادارہ ثقافت اسلامیہ کلب روڈ لاہور میں ہوئی۔ راقم ۱۹۹۰ء کے مارچ میں ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور سے منسلک ہوا۔ یہاں محترم حافظ صلاح الدین یوسف، قاری نعیم الحق نعیم، محترم علیم ناصری، جناب مولانا محمد سلیمان انصاری جیسے عظیم المرتبت علماء و صحافی حضرات کی خدمت میں ہمارا بھی وقت گزرا اور خدمت و اعانت میں حصہ رہا۔ یہ سب حضرات بڑے مشہور اور مسلکی و ملکی سطح پر معروف شخصیات تھیں ۔ بانی دار الدعوۃ السلفیہ حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی رفاقت اور ان کے ادارے سے انسلاک سے علمی و تحقیقی حلقوں میں ان تمام احبابِ گرامی کا ایک تعارف ہے۔ ایک دن میری ڈیوٹی جناب علیم ناصری مرحوم نے لگائی کہ آپ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ کلب روڈ پر جائیے اور
Flag Counter