Maktaba Wahhabi

118 - 924
ایسے انسان صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں : ؎ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا اپنے مسلک اہلِ حدیث میں بہت متصلّب تھے اور اپنے مسلک کے خلاف معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ علم و فضل کے اعتبار سے جامع العلوم تھے۔(عراقی) مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (۱)۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ ایک خاص انداز کے عالم تھے اور ایک خاص لہجہ ان کے ساتھ مخصوص تھا، جو زندگی کے آخری دم تک ان کا رفیق رہا۔ اور اسی لہجہ پُر خلوص اور جذبہ پُردرد میں کلمہ حق بلند کرتے ہوئے وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔( ہفت اقلیم، ص: ۱۸۷) (۲)۔ اردو، عربی کے معروف خطیب، بلند آہنگ مقرر، اصلاح و توحید کے علمبردار، احیائے کتاب و سنت کے بے خوف داعی اور متعدد کتابوں کے مصنف، مسلک اہلِ حدیث میں مخلص ترین مبلغ اور اس کی وضاحت و صراحت میں بے حد جری۔(ص: ۱۹۷) (۳)۔ علامہ شہید رحمہ اللہ صرف مذہبی اور جماعتی جلسوں میں تقریریں نہیں کرتے تھے، بلکہ خالص سیاسی جلسوں اور مختلف سیاسی راہنماؤں میں بھی ان کی آواز گونجتی تھی اور ان کے خطاب کو حق دار تحسین قرار دیا جاتا تھا۔(ص: ۱۹۸) (۴)۔ مرحوم بھٹی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے سنا ہے کہ خود علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ اپنی تقریروں میں یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔ ؎ گو اپنے دوستوں کے برابر نہیں ہوں میں لیکن کسی حریف سے کم تر نہیں ہوں میں (ص:۲۲۵) (۵)۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ وہ علم و ذہانت، تصنیف و تالیف اور تقریرو خطابت کے اوصاف سے متصف تھے۔ چھوٹی عمر میں انھوں نے بہت شہرت حاصل کر لی تھی اور بجا طور وہ اس کے مستحق تھے۔ وہ جماعت اہلِ حدیث بلکہ پورے ملک کا عظیم سرمایہ تھے۔ اس سے بڑھ کر کہنا چاہیے کہ وہ عالمِ اسلام کی متاعِ گراں بہا تھے۔(ص: ۲۴۲) 13۔مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ(م: ۲۲ اگست ۱۹۴۴ء): مولانا سندھی رحمہ اللہ بہت بڑے عالم تھے۔ وہ ایک غیر مسلم خاندان سے حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمہ اللہ کے قابلِ اعتماد شاگرد تھے اور انہی کے حکم سے ملک چھوڑ کر افغانستان گئے تھے، پھر آزادیِ وطن کے لیے مختلف ملکوں کے چکر لگائے، لوگوں سے ملے اور طویل سفر کے بعد ہندوستان واپس آئے۔ علاوہ
Flag Counter