Maktaba Wahhabi

502 - 924
۳۰؍ مئی ۱۹۶۵ء کو میں نے ادارت سے استعفیٰ دیا اور ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۶۵ء کو بطور ریسرچ فیلو ’’ادارہ ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے وابستہ ہو گیا اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ۳۲ سال اس ادارے میں تصنیفی خدمات سر انجام دیں ۔ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ سے وابستگی کے دو مہینے بعد ریڈیو پاکستان میں تقریروں کے سلسلے کا آغاز ہو گیا، جو ۳۴ سال چلا۔ جولائی ۱۹۷۲ء سے ٹیلی ویژن پر بھی تقریریں ہونے لگیں ۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر تقاریر: سوال: آپ ریڈیو میں کن موضوعات پر تقریر یں کیا کرتے تھے؟ بھٹی صاحب رحمہ اللہ: ریڈیوپر میری پہلی تقریر یکم رمضان المبارک بروز جمعۃ المبارک ۲۵؍ دسمبر ۱۹۶۵ء کو نشر ہوئی۔ میں نے سحری پروگرام کیا، جو تین منٹ کا تھا۔ پروڈیوسر عبدالحی قریشی تھے۔ اس کے بعد بے شمار پروگرام کیے۔ مثلاً: صراطِ مستقیم، آیاتِ بینات، فوجی بھائیوں کا پروگرام، کتابوں پر تبصرے اور مذاکرے وغیرہ۔ ایک مرتبہ ربیع الاول کے مہینے میں سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ کی مشہور کتاب ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کی تلخیص پیش کی۔ یہ ۱۵منٹ پر مشتمل ۱۵روز کا پروگرام ربیع الاول کے مہینے میں کئی سال ریڈیو میں نشر ہوتا رہا۔ پھر کچھ عرصے بعد ریڈیو والوں نے ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کی تلخیص پنجابی زبان میں کرائی۔ یہ بھی پندرہ دن کا پروگرام تھا اور روزانہ پندرہ منٹ کا دورانیہ۔ ایک مرتبہ ریڈیو پاکستان میں ’’ہفتہ حدیث‘‘ منایا گیا۔ سات مقررین میں سے ایک میں بھی تھا۔ تقریر کے لیے حدیث سے متعلق مختلف موضوعات دیے گئے تھے۔ دورانیہ ۳۵ منٹ کا تھا۔ میرا موضوع ’’حدیث اور اسماء الرجال‘‘ تھا۔ میں نے ایک گھنٹہ تقریر کی جو ریڈیو سے متعدد مرتبہ نشر کی گئی۔ وہ علمی شخصیات جو وفات پاگئیں ، مگر ان کا نام اور کام زندہ ہے، ان کے حالات پر مشتمل ’’زندہ و تابندہ‘‘ کے نام سے ریڈیو پر پروگرام شروع ہوا، اس پروگرام میں مجھے بھی دعوت دی گئی۔ میں نے ۴۵ دن تقریر یں کیں ۔ ان شخصیات میں حضرت سید عبداﷲ غزنوی، مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا عبدالواحد غزنوی، مولانا سید محمد داود غزنوی، مولانا عبدالقادر قصوری، مولانا محی الدین احمد قصوری، حافظ عبداﷲ روپڑی، مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہم اللہ اور دیگر شخصیات شامل تھیں ۔ مجھے مولانا عطاء اﷲ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ نے بتایا کہ انھوں نے یہ پروگرام سنا تھا، حالاں کہ وہ ریڈیو کے مخالف تھے، لیکن انھوں نے اس لیے پروگرام سنا کہ اس میں ان علمائے کرام کا تذکرہ کیا گیا تھا، جن سے وہ عقیدت مندانہ تعلق رکھتے تھے۔ میاں محمود علی قصوری رحمہ اللہ(بیرسٹر)نے بھی یہ پروگرام سنا، اس لیے کہ اس میں ان کے والد مولانا عبدالقادر قصوری رحمہ اللہ اور ان کے بھائیوں مولانا محی الدین احمد قصوری رحمہ اللہ اور مولانا محمد علی قصوری رحمہ اللہ ایم اے کے حالات بیان کیے گئے تھے۔ اس پروگرام سے متاثر ہو کر میاں محمود علی قصوری رحمہ اللہ نے مجھے کئی دفعہ کہا کہ میں کتابی صورت میں ان کے والد اور بھائیوں کے حالات لکھوں ، لیکن میں ان کی زندگی میں یہ خدمت انجام نہ دے سکا۔ اس
Flag Counter