Maktaba Wahhabi

719 - 924
اور تاریخ کا ایک مجموعہ بن کر رہ گئے تھے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ نصیب فرمائے۔ آمین 3۔میاں محمد جمیل(کنو نیئر تحریک دعوتِ توحید پاکستان): عزم و ہمت کے کوہ گراں قیامِ پاکستان کے فوری بعد جماعت اہلِ حدیث کی علمی و فکری آبیاری میں ہمارے بہت سے بزرگوں نے حصہ لیا۔ اس جدوجہد کے ایک شعوری کارکن کے طور پر جن اہم شخصیات کو اس تحریک کا سرخیل سمجھتا ہوں ، ان میں حضرت مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی، فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا محمد داود غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہم اللہ کے نام بے حد اہم ہیں ۔ یہ تمام حضرات باہمت اور صاحبِ عزیمت بزرگ تھے۔ مؤخر الذکر مولانا محمداسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ باقی حضرات کے رفیقِ کار بھی رہے اور کسی نہ کسی حوالے سے نسبتِ تلمذ بھی رکھتے تھے۔ اکابر علمائے کرام کے حالات جمع کرتے، مشاہیرِ علمائے حدیث کا تعارف کراتے، تاریخِ اہلِ حدیث و رجالِ حدیث کے افکار کو مرتب کرتے ہوئے انھوں نے اپنی پوری زندگی گزار دی۔ جن دنوں میں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کا جنرل سیکرٹری تھا، مختلف جماعتی پروگراموں اور تنظیمی اجلاسوں میں ان سے کئی دفعہ میل ملاقات کے مواقع میسر آئے۔ بلاشبہہ ان کی زندگی جماعتی و تنظیمی کاوشوں ، تاریخ نویسی، علم دوستی اور قلم و کتاب کا بہترین مرقع تھی۔ انھوں نے اپنی بعض کتابوں میں اپنے مخصوص اسلوبِ نگارش میں میرا بھی تعارف کرایا ہے۔ اس سے ان کی وسعتِ ظرفی، بلند پایہ اخلاق اور اصاغر نوازی ظاہر ہوتی ہے۔ ان کی کتابیں بالخصوص برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد، برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش، برصغیر کے اہلِ حدیث خدامِ قرآن، برصغیر میں اہلِ حدیث کی اولیات، برصغیر میں اہلِ حدیث کی سرگزشت، استقبالیہ و صدارتی خطبات، میاں فضل حق رحمہ اللہ اور ان کی خدمات، ارمغانِ حدیث، چمنستانِ حدیث، دبستانِ حدیث، قصوری خاندان وغیرہ میں داعیانِ قرآن و سنت کا حسین گلستان آباد ہے، جس کا ہر پھول مہکتا اور سرسبز و شاداب ہے۔یہ صرف کتابیں ہی نہیں ، بلکہ ایک صدی سے بھی زائد کی عہدساز تاریخ کا قصہ اور حیرت انگیز داستانیں ہیں ۔ جن کا مطالعہ کر کے برصغیر پاک و ہند اور دیگر مسلم ممالک میں علمائے اہلِ حدیث کی دینی، علمی، تحقیقی، سیاسی اور ادبی قرینوں اور کارناموں کے درخشاں باب کا حقیقی معنوں میں تعارف حاصل ہوتا ہے۔ مولانا چونکہ زود نویس تھے، اس لیے ان کے قلم نے کہیں کہیں لغزشیں بھی کی ہیں ، جسے ہم ان کے فکری تسامحات سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا رحیم و کریم ہے۔ اس کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ مولانا مرحوم کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرماتے ہوئے ان کی دینی مساعی اور تحریری خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے اور جماعت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین
Flag Counter