Maktaba Wahhabi

406 - 924
33۔روپڑی علمائے حدیث: برصغیر پاک و ہند کے مذہبی اور اسلامی حلقوں میں روپڑی خاندان کے علمائے اہلِ حدیث کو قدر و منزلت کا مقام حاصل ہے۔ اس خاندان کے علمائے کرام نے تقسیمِ ملک سے پہلے اور بعد دینِ اسلام کی اشاعت، اسلام کے دفاع اور قرآن و سنت کی ترویج میں بڑا کام کیا ہے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے اس کتاب میں مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی، حافظ محمد اسماعیل روپڑی، سلطان المناظرین حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا محمد حسین روپڑی، مولانا عبدالرحمان روپڑی، مولانا محمود احمد روپڑی، حافظ عبدالوحید روپڑی، حافظ عبدالواحد روپڑی، مولانا حافظ عبدالغفار روپڑی، مولانا حافظ عبدالوہاب روپڑی اور دیگر روپڑی علمائے کرام رحمہم اللہ کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کتاب کا سب سے طویل مضمون حضرت حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کے حالات و واقعات پر محیط ہے۔ اس میں حافظ صاحب رحمہ اللہ کے ذاتی حالات، علمی قابلیت، تدریسی و تصنیفی خدمات کو احاطہ تسوید میں لایا گیا ہے اور حضرت العّلام رحمہ اللہ کی بعض تحریروں اور فتاویٰ کو نقل کر کے ان کے تبحر علمی اور مجتہدانہ صلاحیتوں کو اجاگر کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے دور کے بہت بڑے محدث، فقیہ اور مفتی تھے۔ اسی طرح حافظ محمد اسماعیل روپڑی اور حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہما اللہ کے تذکار میں ان کی دینی جماعتی اور مسلکی خدمات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ روپڑی علمائے حدیث پر یہ کتاب انتیس ابواب پر مشتمل ہے اور اس میں گیارہ علما کے حالات اور دینی خدمات کا تذکرہ ہے، اس ضمن میں جماعتی تاریخ کے بیسیوں واقعات اور بہت سی نامور شخصیات کا بھی ذکرِ خیر آگیا ہے۔ روپڑی علمائے حدیث پر یہ کتاب ایک انسا ئیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کے صفحات ۳۴۹ ہیں اور یہ پہلی بار مارچ ۲۰۱۳ء میں محدث روپڑی اکیڈمی جامع القدس اہلِ حدیث چوک دالگراں لاہور کی طرف شائع ہوئی۔ 34۔مولانا احمد دین گکھڑوی رحمہ اللہ: مولانا احمد دین گکھڑوی رحمہ اللہ اپنے دور کے عظیم المرتبت عالمِ دین، کامیاب مناظر، بہترین خطیب اور مسلکی غیرت رکھنے والے غیور عالمِ دین تھے۔ ان کی ساری زندگی اسلام کی نشر و ترویج، ناموسِ رسالت کے دفاع اور عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ میں گزری۔ انھوں نے اسلام کے دفاع کے لیے برصغیر پاک و ہند میں عیسائیوں ، ہندوؤں ، آریہ سماجیوں ، قادیانیوں اور دیگر باطل نظریات کے حامل فرقوں سے کامیاب مباحثے اور مناظرے کیے۔ ایک زمانہ گزرنے کے باوجود اُن کی حاضر جوابی، بذلہ سنجی اور علمی رسوخ کے قصے زبان زدِ عام ہیں ۔ مناظروں اور مباحثوں کے علاوہ انھوں نے اپنے وعظ کی اثر آفرینی سے بھی ہزاروں لوگوں کے عقائدِ باطلہ کی اصلاح کی اور انھیں توحید و سنت کی راہ دکھائی۔ بلاشبہہ مولانا احمد دین مرحوم نے بغیر کسی دنیاوی لالچ کے دور دراز علاقوں میں پہنچ کر توحید و سنت کے احیا اور پیغمبرِ اسلام کی ناموس کے لیے اپنی زندگی کے شب و روز صرف کیے۔ اس نابغۂ عصر عالمِ دین کی زندگی دلچسپ
Flag Counter