Maktaba Wahhabi

725 - 924
کے سیکڑوں علمائے حدیث اور اصحابِ سنت کی نمایاں خدمات، تاریخی کردار اور منفرد تذکار کو مرتب و مدون کر کے انھیں تاریخ کے دریچوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔ ان عظیم ترین خدمات پر اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر سے نوازے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ اس عظیم رجل رشید، مورخ و محقق عالمِ دین کی لغزشوں سے صَرف نظر فرماتے ہوئے انھیں جنت الفردوس کا اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور جماعت اہلِ حدیث میں ان جیسا ذہبیِ وقت پیدا فرما دے۔ آمین 11۔جناب محمود مرزا جہلمی(مرکزی راہنما، مرکزی جمعیت اہلِ حدیث ضلع جہلم): ایک نظریاتی اور مصلح انسان کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو کس طرح اور کیسے خراجِ عقیدت پیش کروں ؟ ان کے پسماندگان سے تعزیت کریں یا اپنے آپ کو تسلی دیں ؟ بلاشبہہ حضرت صاحب رحمہ اللہ کا سانحہ ارتحال کسی ایک فرد، خاندان، برادری، جماعت، ادارہ، علاقہ، شہر اور ملک کا نہیں ، بلکہ پوری ملتِ اسلامیہ کا سانحہ اور نقصان ہے۔ وہ ایک نظریاتی، صلح پسند اور با اصول انسان تھے۔ مولانا رحمہ اللہ نے حدیث اور اہلِ حدیث رجال پر درجنوں کتابیں لکھ کر ہزاروں محدثین، فقہا اور علما کو زندہ و تابندہ کر دیا۔ انھیں مسلکِ اہلِ حدیث سے جنون کی حد تک محبت تھی اور اس راہ میں وہ کسی مفاد اور مصلحت کو خاطر میں نہ لاتے۔ ’’اہلِ حدیث‘‘ کے عنوان سے خاص طور سے لکھی گئی کتابیں پڑھیے: برصغیر میں اسلام کی آمد، دبستانِ حدیث، چمنستانِ حدیث، برصغیر میں اہلِ حدیث خدامِ قرآن، ایک طویل فہرست ہے۔ واقعی ان جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں ۔ آپ رحمہ اللہ کی تحریر و تقریر میں بلا کا اعتماد اور سبق آموز بیانیہ ملتا ہے۔ وہ جب بھی اور جس محفل میں بھی پون صدی قبل کی دینی، علمی اور سیاسی نشیب و فراز کی داستان سناتے تو ان کے ٹھہرے ہوئے لہجے میں دلچسپ واقعات کا تسلسل ملتا۔ ان کی تحریر سے حلم، ہوش، اعتدال اور تحقیقی فکریں اجاگر ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے منور فرمائے اور ان کی باقیات الصالحات سے پوری امت کو فیض پہنچائے۔ آمین 12۔مولانا محمد انور قاسم سلفی(کویت): مورخِ اہلِ حدیث اور ممتاز تذکرہ نویس مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ وہ کہنہ مشق صحافی، مورخ، عالمِ دین، تجزیہ نگار اور خاکہ نویس تھے، جو تقریباً ساٹھ برس سے اپنے رشحاتِ قلم کی عطر بیزی سے ایک دنیا کے طالبان علومِ دینیہ، وارثانِ علوم نبوت اور محبانِ اسلامی صحافت کی مشام روح کو معطر کیے ہوئے تھے۔ گویا: ؂ عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں ! مولانا مرحوم نے اپنی زندگی کے طویل ماہ و سال لوح و قلم کی خدمت میں لگا دیے اور اس عرصے میں کم و بیش پچاس ہزار سے بھی زائد صفحات تحریر کیے، جسے اگر ایک ساتھ جمع کیا جائے تو کم از کم سو ضخیم جلدیں بنیں گی اور جن کی
Flag Counter