Maktaba Wahhabi

447 - 924
اور معیار مقرر کیے، ان میں ایک یہ ہے کہ اس راوی کی روایت کو قابلِ قبول ٹھہرایا جائے جو خود شریکِ واقعہ اور اس روایت کا راویِ اول ہے۔ اگر بالفرض وہ خود شریکِ واقعہ نہیں تو ان تمام راویوں کا سلسلہ محفوظ ہونا ضروری ہے جو شریکِ واقعہ تک ساری بات پہنچا دیں ۔ اس کے علاوہ یہ بھی لازم ہے کہ تمام راویانِ واقعہ کے نام ترتیب کے ساتھ بیان کیے جائیں ۔ اصل واقعہ تک پور ے سلسلہ روات میں کہیں انقطاع نہ ہو۔ پھر اس بات کا اہتمام بھی ضروری ہے کہ کامل تحقیق و تفحص کے بعد یہ فیصلہ بھی کر لیا جائے کہ سند میں جن راویوں کے نام لیے جارہے ہیں ، وہ کون لوگ ہیں ؟ حفظ و اتقان میں ان کا کیا مرتبہ ہے ؟ روایت و درایت میں کس درجے کے حامل ہیں ؟ کس قسم کے فہم و فراست کے مالک ہیں ؟ ان کی عدالت و صداقت کیسی ہے؟ ثقاہت میں ان کا کیا مقام ہے؟ معاملات میں کس پایہ کے لوگ ہیں ؟ عمل و عقیدہ میں ان کا رجحان کیا ہے؟باریک بین اور دقیقہ رس ہیں یا کند ذہن اور غبی؟ کب پیدا ہوئے؟ کہاں پیدا ہوئے؟ عہدِ شباب کس طرح گزرا؟ زمانۂ کہولت کس طرح بسر ہوا؟ شیخوخت اور پیری کی منزلیں کہا ں طے ہوئیں اور کس انداز سے ہوئیں ؟ تعلیم و تعلم کے مراحل کس نہج سے گزرے؟ کن اساتذہ سے تحصیل کی؟ طالب علمی کا زمانہ کیسا گزرا؟ نشست و برخاست زیادہ تر کن افکار و خیالات کے لوگوں کیساتھ رہی؟ علم وتحقیق کے کس مرتبہ میں فائز تھے؟ شب وروز کس ماحول میں بسرہوئے؟ رفقا و احباب کس قسم کے تھے؟ دلچسپیوں کا محور کون لوگ تھے؟ مغفل تو نہ تھے؟ خلفا و ملوک سے کوئی تعلق رکھتے تھے یا نہیں ؟ اگر رکھتے تھے تو متملق اور خوشامدی تو نہ تھے؟ زہد وعبادت کا کیاحال تھا؟ اعزہ و اقارب سے کس قسم کے تعلقات رکھتے تھے؟ متاہل تھے یا نہیں ؟ تو ہمات کا شکار تھے یا نہیں ؟ کسی معاملے میں احتیاط کا دامن چھوٹتا تھا یا نہیں ؟ کوئی راوی سفیہ یا فاتر العقل تو نہیں تھا؟ اگر اسے سفاہت کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا تو اس کی کون سی مرویات دورِ سفاہت سے پہلے کی ہیں اور کون سی بعد کی؟ اس میں اختلال تھا یا نہیں ؟ راوی کا تعلق اہلِ ہویٰ یا زنادقہ سے تو نہیں تھا؟ مزاج میں عبوست یا یبوست پائی جاتی تھی یانہیں ؟ توازن واعتدال کا کیا حال تھا؟ غرض ہر راوی کے بارے میں اس قسم کی جزئیات اور تفصیلات کی پوری چھان بین کی جاتی تھی۔ یہ تھے وہ پیمانے اور معیار جو مختلف محدثین و اہل الحدیث نے قائم کیے اور ان کی روشنی میں اخذ و قبولِ روایت کے اصول مقرر فرمائے۔ راویوں کے مدارج اور طبقات: پھر روات کے مدارج اور طبقات قائم کیے۔ ظاہر ہے بعض راوی ذہانت وفطانت اور فہم وفراست کے بہ درجہ غایت اونچے درجوں پرفائز تھے اور انتہائی دقیقہ رس اور اصحابِ عدل و صدق تھے اور بعض حضرات ان اوصاف و کمالات میں کم درجہ کے تھے۔ اس کے لیے طبقہ اولیٰ، طبقہ ثانیہ، طبقہ ثالثہ، طبقہ رابعہ وغیرہ کی اصطلاحیں معرضِ وجود میں آئیں اور جو کوئی جس طبقے یا درجے کا مالک تھا، اس کو اسی چوکٹھے میں موزوں کیا گیا۔ یہ طبقات سند کے اعتبار
Flag Counter