Maktaba Wahhabi

644 - 924
میرے پیارے ابو جی مولانا محمد اسحا ق بھٹی رحمہ اللہ تحریر: محترمہ سمیہ زیرک(بیٹی مولانا محمد اسحاق بھٹی مرحوم) مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب جن کو دنیا مورخِ اسلام، مذہبی اسکالر، ذہبیِ دوراں ، تحریکِ آزادی کے عظیم سپاہی، محسنِ اہلِ حدیث، یادگارِ اسلاف، نامور ادیب، شہسوارِ قلم جیسے ناموں سے جانتی ہے، لیکن میں یہاں صرف ان کا تعارف ایک والد کی حیثیت سے کرانا چاہتی ہوں ۔ وہ ایک عظیم والد ہونے کے ساتھ ایک شفیق، خوش گفتار، ملن ساز انسان بھی ہیں ۔ ان سے جو بھی کوئی ایک بار مل لے تو وہ ان سے بار بار ملنے کی خواہش رکھتا ہے اور ہر انسان ان سے ملنے کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ بھٹی صاحب صرف ان سے ہی اتنی محبت کرتے ہیں ۔ کوئی امیر ہو یا غریب؛ ان کا ہر ایک سے ملنے کا انداز ایک ہی ہے۔ ان کے بڑے بڑے سیاست دانوں سے بہت اچھے تعلقات رہے، لیکن انھوں نے ان تعلقات کو کبھی کیش نہیں کرایا۔ جو کوئی بھی ان سے ملنے آتا، وہ گھر ہوں ، دفتر یا باہر کسی جگہ پر، نہایت گرم جوشی سے ملتے اور ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی کہ وہ کھانا کھائے بغیر نہ جائے اور وہ اس کوشش میں سو فیصد کامیاب بھی رہتے۔ میرے ابو جی مجھے بچپن سے انبیائے کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قصے، کہانیاں اور واقعات سنایاکرتے۔ ان واقعات ہی سے مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ یعنی اگر میں کوئی غلط کام یا بات کرتی تو ڈانٹتے نہیں تھے، بلکہ یہ ان کے سمجھانے کا طریقہ تھا، تاکہ اب میں یہ غلط کام نہ کروں ۔ سکول کالج کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد میری شادی بہاول نگر ہوئی۔ میرے شوہر کا نام بھی محمد اسحاق بھٹی ہے اور وہ میرے ساتھ میرے والدین کی محبت کو بہت ہی اچھی طرح جانتے ہیں ۔ میرے بچوں کے نام بھی میرے ابو جی رحمہ اللہ نے رکھے، بیٹوں کے نام محمد نعمان اسحاق، محمد عویمر اسحاق، محمد ذکوان اسحاق اور محمد نوفل اسحاق، اور بیٹیوں کا نام بریرہ اسحاق، قانتہ اسحاق رکھا۔ میرے میاں ، ابو جی رحمہ اللہ کو والد کا درجہ دیتے تھے اور یہ بات برملا کہتے اور بار بار کہتے ہیں کہ جو پیار مجھے چاچا جی رحمہ اللہ(ابو جی)اور پھوپھو جی رحمہ اللہ(امی جی)نے دیا ہے، وہ پیار مجھے میرے والدین نے بھی نہیں دیا۔ میں جب یہ بات اسحاق صاحب حفظہ اللہ کے منہ سے بار بار سنتی ہوں تو میری خوشی کی انتہا نہیں رہتی اور میرے دل میں بھی میرے شوہر کا احترام بڑھ جاتا ہے۔ شاید میں یہ بات کسی دوسرے کے والدین کے بارے میں کبھی نہیں کہہ سکتی۔
Flag Counter