Maktaba Wahhabi

539 - 924
فرید کوٹ جیل میں میری کوٹھڑی سے بائیں جانب تیسری کوٹھڑی ان کی تھی۔ یہ فرید کوٹ شہرکی ’’پرجا منڈل‘‘ کے جنرل سیکرٹری تھے۔ آزادی کے بعد منٹگمری(موجودہ ساہیوال)آگئے تھے۔ دو دفعہ مجھے ملنے کے لیے لاہور آئے۔ بے حد شریف اور نیک آدمی تھے۔ ساہیوال میں ان کا انتقال ہوا۔ ستمبر ۱۹۸۴ء میں گیانی ذیل سنگھ کے داماد ڈاکٹر لال سنگھ کا انتقال چندی گڑھ میں ہوا۔ میں نے یہ خبر اخبارات میں پڑھی تو گیانی جی کو تعزیت کا خط لکھا۔ انھوں نے پریذیڈنٹ سیکرٹریٹ(Rashtrapati Bhavan) سے اس خط کا جواب تحریر کیا۔ لیکن یہ خط ہندی زبان میں تھا، جس میں میرے تعزیتی خط پر میرا شکریہ ادا کیا گیا تھا۔[1] 15۔مولانا عبدالکریم السّلفی الدمام(سعودی عرب)کا مکتوب: صوفی نذیر احمد کا شمیری رحمہ اللہ اسلام کے بہت بڑے مبلغ تھے۔ وہ ہندوؤں کے مذہبی مراکز میں جا کر اسلام کی بے لاگ دعوت پیش کیا کرتے۔ ان کی زندگی کے حیرت انگیز واقعات ہیں ۔ انھوں نے ۵؍ دسمبر ۱۹۸۵ء کو ہندوستان کے صوبہ یوپی کے شہر سہارن پور میں وفات پائی۔ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے ان کے حالات و واقعات تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’’قافلہ حدیث‘‘ میں لکھے ہیں ، جو صفحہ ۱۹۸ سے شروع ہو کر صفحہ ۲۱۵ تک چلے گئے ہیں ۔ کتاب کے کچھ عرصہ بعد مولانا ممدوح رحمہ اللہ کو صوفی صاحب رحمہ اللہ کے حوالے سے دمام(سعودی عرب)سے ہندوستان کے ممتاز عالم مولانا عبدالکریم سلفی کا مکتوب ملا۔ اس میں انھوں نے صوفی صاحب کے متعلق دو دلچسپ واقعات کا ذکر کیا۔ یہ واقعات انھوں نے حکیم ابوالحسن عبیداللہ کشمیری رحمہ اللہ کی تصنیف ’’اسلام کا اجتماعی نظام‘‘(طبع بمبئی)سے لیے تھے۔ ان مطبوعہ واقعات کی فوٹو کاپی انھوں نے بھجوائی۔ اور اس سلسلے میں جو خط لکھا، اس کے مندرجات یہ تھے: فضیلۃ الشیخ مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ وبعد! آپ کی تالیف کردہ کتاب ’’قافلہ حدیث‘‘ میرے ہاتھوں میں ہے۔ دورانِ مطالعہ جناب صوفی نذیر احمد کاشمیری رحمہ اللہ کا ذکر آیا۔ میں نے ان کو جامعہ سلفیہ بنارس میں طالب علمی کے زمانے میں دیکھا تھا، لیکن استفادے کا موقع نہ مل سکا۔ البتہ ان کے ایک مخلص دوست جناب حکیم ابو الحسن عبید الرحمان کشمیری رحمہ اللہ(جو کسی زمانے میں کشمیر میں طبیہ کالج کے پروفیسر ہوا کرتے تھے، اس لیے کشمیری بھی لکھے جاتے ہیں )نے ان کے دو(2)واقعے اپنی کتاب ’’اسلام کا اجتماعی نظام‘‘ میں درج کیے ہیں ۔ جن کی فوٹو کاپی آپ تک پہنچا رہا ہوں ، امید ہے کہ آیندہ اِڈیشن میں شامل اشاعت ہو سکیں گے۔ یہ کتاب جامعہ رحمانیہ بمبئی سے اگست ۱۹۹۴ء میں چھپی ہے، جس کے صدر جناب قاری نجم الحسن فیضی ہیں ۔
Flag Counter