Maktaba Wahhabi

63 - 924
علم و ادب کے آفتاب ۔۔۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تحریر: جناب مولانا خالد سیف۔ فیصل آباد مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ان اہلِ فضل و کمال میں سے ہیں جن کے نام سے شناسائی تو ابتدائے شعور ہی سے تھی، لیکن ان کی زیارت اور ان کے علمی و تحقیقی کام سے تعارف میں کئی سال حائل ہوگئے۔ میں ملک کی معروف اور عظیم دینی دانش گاہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں طلبِ علم میں مشغول تھا، جامعہ کی لائبریری میں اندرون وبیرون ملک سے جو بہت سے جرائد ومجلات آتے تھے، ان میں ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہوربھی تھا، جس کے صفحہ اوّل پر مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کا نام جلی حروف میں بطور مدیر کندہ ہوتا تھا، لیکن ان کی زیارت کا شرف کئی سال بعد اس وقت حاصل ہوا، جب وہ وقتاً فوقتاً گاہے تنہا اور گاہے گرامی منزلت حضرت الاستاذ مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کی معیت میں ادارہ ’’علومِ اثریہ‘‘ فیصل آباد کی میٹنگوں میں تشریف لایا کرتے تھے۔ ادارے ہی کے سلسلے میں کئی بار ان کے دفتر ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ لاہور میں بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ جو شخص بھی ان سے ملتا، اسے پہلی ملاقات ہی میں یہ احساس ہوجاتا کہ وہ بہت ہی دل آویز اور باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں ۔ یبوست ان کے قریب نہیں پھٹکی، وہ تو بلبل کی طرح چہکتے اور اپنے لطائف و ظرائف سے مجلس کو زعفرانِ زار بنا دیتے۔ میں نے متکلمِ اسلام حضرت مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کے سوا ان سے بہتر اور دلچسپ مجلسی گفتگو کرتے ہوئے کسی کو نہیں پایا کہ حضرت الاستاذ رحمہ اللہ کی گفتگو تو بڑی عالمانہ، شگفتہ، شائستہ اور خوش گفتاری کا نہایت اعلیٰ نمونہ ہوتی تھی۔ سنجیدگی و متانت کے ساتھ شگفتگی کا ایسا حسین امتزاج کم ہی دیکھنے میں آیاہے۔بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے کم و بیش چالیس برس کا عرصہ ان کی صحبت و رفاقت میں گزارا تھا، اس لیے علم و تحقیق، زبان و اسلوب اور دیگر بہت سے امور میں ان سے متاثر ہونا ایک طبعی تقاضا تھا۔ مولانا ندوی رحمہ اللہ نے نہ صرف لکھنؤ کے ’’ندوۃ العلمائ‘‘ سے کسبِ فیض کیا، بلکہ لکھنوی تہذیب کے وہ نہایت خوش رنگ پیکر تھے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ بھی جمال ہم نشیں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی تحریروں میں بھی ایسی شادابی اور شگفتگی، رعنائی اور زیبائی پیدا ہوگئی تھی کہ اسے پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے دہلی یا لکھنؤ کے کسی
Flag Counter