Maktaba Wahhabi

323 - 924
مورخِ اہلِ حدیث، مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے ایک ملاقات تحریر: جناب حافظ احسن شفیق صدیقی۔ ساہیوال دورِ قدیم سے لے کر اب تک مختلف انداز اور طریقوں سے ہر کسی نے اپنی بساط کے مطابق قلم کا استعمال کیا ہے۔ کسی نے احادیث کو جمع کیا اور کسی نے فقہ، تاریخ اور دیگر علوم پر قلم کو جنبش دی اور کچھ افراد ایسے بھی اللہ رب العزت نے اس شعبے میں پیدا کیے کہ جنھوں نے تاریخی کام کر کے ملک و قوم کی خدمت تو کی ہی، وہاں رضائے الٰہی کو بھی مقصود و مطلوب رکھا۔ ایسی شخصیات میں سے ایک شخصیت جن کا تذکرہ کرنا مقصود ہے کہ جن سے ملنے کے بعد بہت سی شعبہ ہائے زندگی کی کیفیات میں تقویت و اعتماد ملا گویا کہ ’’نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا۔‘‘ میری مراد مورخ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ہیں ، جن سے میری ملاقات جنوری ۲۰۱۲ء میں ہوئی۔ جہاں ملاقات کا مقصد رضائے الٰہی تھا، وہاں اس کا سبب نانا جان محترم حافظ عبد الحق صدیقی رحمہ اللہ کی حیات و خدمات کے حوالے سے اور ان کا جو نانا جان سے قلبی رشتہ استوار تھا، اس کے احوال جاننے کے متعلق لاہور روانہ ہوا اور یہ ملاقات میرے مشفق استاد محترم حضرت مولانا فاروق الرحمن یزدانی حفظہ اللہ کے توسط سے ہوئی، اللہ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ جمعرات کا دن تھا، دوپہر ۲ بجے کے قریب اسلامیہ کالونی ساندہ لاہورپہنچا، جہاں محترم سعید احمد بھٹی صاحب مجھے سٹاپ پر لینے آئے ہوئے تھے، خندہ پیشانی سے ملے، آپ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے برادر عزیز ہیں ۔ حیران تھا کہ پہلی ملاقات ہے میری بزرگوں کے ساتھ(ٹیلی فونک رابطہ تو تھا، لیکن بالمشافہہ پہلی ملاقات تھی)۔ وہ مجھے اپنے ساتھ گھر لے آئے۔ انتہا درجے کی سادگی! گویا((من تواضع للّٰہ رفعہ اﷲ))کا منظر تھا۔ مورخِ اہلِ حدیث کی دید کے لیے آنکھیں بے چین، دل مچلتا اور دھڑکن تیزہو گئی کہ ناچیز کو ان کا دیدار نصیب ہوگا! انہی سوچوں میں گم تھا کہ کسی دھیمی آواز نے مشفقانہ لہجے میں السلام علیکم کہا اور گرم جوشی سے معانقہ کیا۔ کیا وہ روحانی سماں تھا کہ مورخِ اہلِ حدیث جیسی عظیم شخصیت نے مجھے گلے لگایا اور غور سے مجھے دیکھتے ہوئے ایک بات کہی، جو آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ کہنے لگے: ’’ماشاء اللّٰہ! آج تو حضرت مولانا عبدالحق صدیقی رحمہ اللہ یاد آگئے، آپ کو دیکھ کر۔ آہ…!‘‘ اور اس جملے
Flag Counter