Maktaba Wahhabi

69 - 924
مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تاریخِ اہلِ حدیث کا ایک سنہری باب! تحریر: جناب پروفیسر میاں عبدالمجید(مدیر: ہفت روزہ ’’تنظیم اہلِ حدیث‘‘ لاہور) ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء صبح کے وقت موبائل فون پر پیغام موصول ہوا کہ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ وفات پاچکے ہیں اور ان کی نمازِ جنازہ دو بجے ناصر باغ لاہور میں ادا کی جائے گی۔ دل میں ان کی جدائی کے جذبے کے ساتھ ساتھ ان کا ہنستا مسکراتا نورانی چہرہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔ میرے جیسے کم علم کے لکھے ہوئے اداریوں کی تعریف اور پھر حضرت حافظ عبدالوہاب روپڑی حفظہ اللہ کے ذریعے پیغام کہ حق لکھتے ہوئے بھی قلم کی نوک کو ذرا نرم رکھا کرو، اگرچہ باتیں بالکل درست ہوتی ہیں ، لیکن ذرا نرمی اختیار کیا کریں ۔ کبھی براہِ راست مجھے اس بارے میں نہیں فرمایا کہ کہیں میں برا نہ محسوس کروں ۔ میں بھی مسکرا کر حافظ عبدالوہاب صاحب کو جواباً اتنا ہی کہتا کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ مولانا عبدالقادر حصاری رحمہ اللہ کے بھتیجے سے کیسے توقع رکھتے ہیں کہ قلم کی مصلحت یا مداہنت کا شکار ہوگا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا آبائی وطن کوٹ کپورہ، ریاست فرید کوٹ تھا۔ تعلیم کا آغاز شیخ الحدیث مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی شاگردی سے کیا۔ دل و دماغ کی زمین زرخیز تھی اور پھر پیکرِ علم و عمل استاد کے سایۂ عاطفت میں آگئے۔ استاد کیمیا گر ہو تو خام کو کندن بنا دیتا ہے۔ لکھوی خاندان کے بزرگ اساتذہ تقویٰ، عبادت، ذکر و اذکار اور قلبی نورانیت کے چشمہ فیض تھے۔ ’’لکھوکے‘‘ میں ان کے مشہور مدرسہ جامعہ محمدیہ تو پتھروں کو ہیروں میں تبدیل کر دینے میں مشہور تھا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ تو خود ہیرا نا تراشیدہ تھے۔ ماہر سنگتراشوں نے اسے کوہِ نور کے مقابل لا کھڑا کیا۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ ذکر کرنا میرے لیے باعثِ مسرت ہے کہ میرے تایا جان مولانا عبدالقادر حصاری رحمہ اللہ نے بھی مولانا محی الدین لکھوی اور مولانا معین الدین لکھوی رحمہا اللہ کے والدِ گرامی مولانا محمد علی لکھوی رحمہ اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا۔ غزنوی خاندان کے جدِ امجد مولانا سید عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ جب شیخ میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے حدیث پڑھنے کے لیے گئے تو مولانا نذیر حسین رحمہ اللہ فرمایاکرتے تھے کہ عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ نے مجھ سے حدیث پڑھی
Flag Counter