Maktaba Wahhabi

624 - 924
1۔سعید احمد بھٹی صاحب: جسمانی لحاظ سے کمزور اور دبلے پتلے، مگر حقیقتاً فولادی عزم اور مضبوط ارادوں کی علامت، ملنسار، ہنس مکھ، سادگی پسند، ہر قسم کی نمود و نمایش اور تصنع سے مبرّا، منکسر المزاج اور غریب پرور، جذبہ دینی سے سرشار، دعاگو، فراخ دل، مہمان نواز، محبت، اخلاق میں زندہ دل متعدد خصوصیات سے مزین شخصیت۔ یہ ہیں جناب سعید احمد بھٹی حفظہ اللہ!! آپ ۱۹۵۰ء میں اپنے آبائی خطے ۵۳ گ۔ ب ڈھیسیاں تحصیل جڑانوالہ ضلع فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ ابھی چار(۴)برس ہی کے تھے کہ مولانا محمداسحاق بھٹی کی آغوش میں آگئے۔ مولانا مرحوم ہی نے آپ کی بنیادی دینی و اخلاقی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ اپنی اولاد کی طرح انھیں پالا، اپنے ساتھ رکھا اور زندگی کے تمام مراحل میں ان کی مکمل سرپرستی کی۔ مولانا چوں کہ اولادِ نرینہ سے محروم تھے، اس لیے جناب سعید احمد بھٹی صاحب نے ایک سعادت مند بیٹے کا فرض ادا کیا اور مرحوم کی زندگی کے آخری سانسوں تک ان کی خدمت داری میں لگے رہے۔ میں جب بھی لاہور مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات کو گیا تو انھیں مولانا مرحوم کے اخلاص و وفا میں رنگین دیکھا۔ مولانا ممدوح گرامی رحمہ اللہ نے نہایت محنت اور عرق ریزی سے گذشتہ سو برس سے بھی زائد عمر کے قلمی مخطوطات، اخبارات، رسائل و جرائد، تحقیقی کتب اور برصغیر کے وسیع لٹریچر کو کھنگال کر قیمتی حوالہ جات کی کھوج لگا کر انتہائی اہم نوعیت کے تاریخی نوادرات کو اپنی چالیس کے قریب گراں قدر تالیفات کی صورت میں مرتب فرمایا تو اس میں جناب سعید احمد بھٹی صاحب کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی ان علمی مراحل حیات میں ایک خادم کی حیثیت سے بھرپور سعادت حاصل کرنے کی سعی کی۔ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ جب مرضِ وفات میں مبتلا ہسپتال میں داخل تھے۔ جناب سعید احمد بھٹی یہاں بھی ان کی تیمار داری میں لگے ہوئے تھے۔ وہ دو راتوں سے مسلسل جاگ کر اپنے مشفق و مربی برادرِ گرامی کی خدمت میں مصروف تھے۔ ان کے چہرے پرتھکن کے آثار نمایاں دیکھ کر ان کے بیٹے برادرم محمد حسان سعید بھٹی نے کہا: ’’آپ گھر چل کر آرام کر لیں … ’’ابو جی‘‘ کی خدمت کے لیے میں یہاں بیٹھ جاتا ہوں ۔‘‘ اسی لمحے مولانا بھٹی رحمہ اللہ کی نحیف آواز اُبھری… ’’سب چلے جائیں ، مگر سعید میرے پاس ہی رہے گا‘‘… بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے اس جملے نے سعید بھٹی کی سعادت مندی پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ گویا وہ کہہ رہے تھے کہ ’’سعید‘‘ میری زندگی کا ساتھی ہے، وہ میری طبیعت اور مزاج کو کسی دوسرے کی نسبت زیادہ بہتر جانتا ہے۔ جب زندگی بھر میں نے اسے الگ نہیں کیا تو اس آخری وقت بھی اسے میرے ہی سرہانے رہنے دو… دل سے کس طرح مٹاؤ گے محبت کے نقوش یہ کوئی ریت پہ لکھی ہوئی تحریر نہیں جناب سعید احمد بھٹی کی اہلیہ محترمہ مولانا بھٹی مرحوم کی بیگم مجیدہ بی بی مرحومہ کی بھانجی ہیں ۔ دونوں میاں بیوی بلکہ
Flag Counter