Maktaba Wahhabi

616 - 924
کے لیے خوب محنت کی، جس کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے۔ مولانا نے ۲۲؍ ستمبر ۱۹۷۹ء کو لاہور میں وفات پائی۔ اللہ تعالیٰ ان کی بشری لغزشوں کو معاف فرما کر اعلیٰ علیین میں مقام رفیع عنایت فرمائے۔ آمین 15۔علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ(شہادت: ۳۰؍ مارچ ۸۷ ۱۹ء): شہید ملتِ اسلامیہ حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ ایک نابغۂ روزگار، عظیم مفکر شخصیت تھے۔ آپ نے اپنی دبنگ علمی حیثیت، خطیبانہ صلاحیتوں اور فرق کے موضوع پر لکھی جانے والی بلند پایہ کتابوں کے باعث صفحۂ ہستی پر اپنا نام روشن کیا اور بین الاقوامی شہرت حاصل کی ۔ عرب و عجم نے ان کی علمی خدمات اور خطابت کا اعتراف کیا۔ علامہ صاحب رحمہ اللہ اللہ داد ذہانت اور اعلیٰ ادیبانہ صلاحیت کے مالک تھے ۔ آپ کی رائے میں توازن، فکر میں گہرائی اور معاملات میں دور اندیشی کا عنصر شامل ہوتا تھا۔ انھوں نے جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا، کچھ عرصہ تحریکِ استقلال سے بھی وابستہ رہے۔ سیاست میں ان کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ ؂ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی سیاست کی وادی پُرخار میں قدم رکھا تو انھیں ہر دور کے آمر سے ٹکرانے والے، منجھے ہوئے سیاستدان نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم اور دشتِ صحافت میں آبلہ پائی کرتے عمر گزار نے والے آغا شورش کاشمیری مرحوم کی رفاقت اور راہنمائی میسر آگئی۔ وطنِ عزیز پاکستان کے دفاع کے لیے ان کی بے پناہ خدمات ہیں ۔ انھوں نے پاکستان دو لخت ہوتے وقت ’’بنگلہ دیش تحریک نامنظور‘‘ میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ اس دور کی ان کی صرف چند تقاریر ہی انھیں محبِ وطن قرار دینے کے لیے کافی ہیں ۔ جنرل ضیاء الحق ’’شریعتِ بل‘‘ کے نفاذ کے لیے علامہ صاحب رحمہ اللہ کو اعتماد میں لینا چاہتے تھے، لیکن علامہ صاحب رحمہ اللہ اس بل کو ایک مخصوص فرقے کی ایک تجویز قرار دیتے تھے۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا: ’’شریعتِ بل اگر شریعتِ الٰہیہ ہے تو اسے ’’شریعتِ بل‘‘کہنے کا اختیار کس نے دیا؟ علامہ صاحب رحمہ اللہ نے پاکستان بھر کے اہلِ حدیث ا سٹیجوں پر خطابات کیے، ان کی یادگار تقریریں مکتبہ قدوسیہ لاہور نے دو جلدوں میں شائع کر دی ہیں اور مزید پر کام جاری ہے۔ مرزائیوں اور قادیانیوں کے خلاف جتنی تحریکیں ان کی زندگی میں برپا ہوئیں ، اس میں ان کا سر فروشانہ اور قائدانہ کردار رہا۔ حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ جامع الصفات شخصیت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو متعدد عالی صفات سے متصف فرمایا تھا۔ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا۔ ان زبانوں میں ان کی تصانیف موجود ہیں اور عالمِ اسلام کے ممتاز اہلِ علم سے خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں ۔ آپ کی چندمعروف تصانیف یہ ہیں : القادیانیۃ، البہائیۃ، الشیعۃ و السنۃ، الشیعۃ و أہل البیت، الشیعۃ و القرآن، الشیعۃ و التشیع(فرق و تاریخ)، البریلویۃ، البابیۃ، التصوف، المنشأ و المصادر، دراسات في التصوف، بین
Flag Counter