Maktaba Wahhabi

190 - 924
میں محبوس کیے گئے، لیکن پھر بھی اپنے مشن میں لگے رہے، آپ کی اسی ثبات قدمی اور علمی فراست کو دیکھتے ہوئے آپ کا حلقۂ یاراں وسیع ہوتا چلا گیا، جس میں قاضی عبید اللہ، صوفی خوشی محمد، دوست محمد خان اور سابق صدر جمہوریہ ہند گیانی ذیل سنگھ خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں ۔ علامہ اسحاق رحمہ اللہ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ہیڈ سلیمانکی کے ایک آفس میں بحیثیت کلرک اور بعد میں چل کر سٹور کیپر کی شکل میں ماہانہ پچیس روپے پہ کیا تھا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ حضرت رحمہ اللہ نے یہاں بھی اپنی داعیانہ ذمے داریوں کو فرضِ منصبی سمجھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ صحیح اسلام سے متعارف ہوئے اور ان کے دلوں میں آپ کی قدر و منزلت بڑھتی گئی۔ ﴿ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ ﴾ [آل عمران: ۲۶] مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ علامہ صاحب کی زندگی میں ایسا بھی وقت آیا کہ انھیں ٹرانسپورٹ میں ڈرائیوری اور کنڈیکٹری کے عمل سے بھی گزرنا پڑا اور اس دوران میں دہلی و آگرہ کا سفر اور اس بیچ علمائے اہلِ حدیث کی علمی مجالس میں شرکت کرنا اپنی اہم ذمے داری سمجھتے رہے۔ مارچ ۱۹۴۳ء کا زمانہ تھا، دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے استاذ شیخ الحدیث مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ سے علیک سلیک کر لیا جائے، یہاں تو قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ﴿ يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ﴾ [المجادلۃ: ۱۱] شیخ بھوجیانی رحمہ اللہ کو اپنے ہونہار شاگرد کی قابلیت اور علمی صلاحیتوں کا خوب اندازہ تھا، چنانچہ ان کے حکم اور مولانا معین الدین لکھوی کی خواہش پہ آپ مشہور علمی دانش گاہ مرکز الاسلام میں درس و تدریس کے عظیم منصب سے جڑ گئے۔ سیاست اور قید وبند: علامہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ بھی اپنے علم و مطالعہ اور تحریکی و سیاسی ذہن رکھنے کی وجہ سے کسی نہ کسی سیاسی جماعت اور شخصیت سے متاثر تھے۔ نتیجتاً آپ بھی سیاسی جماعتوں سے منسلک ہو کر اپنے دیگر رفقائے وطن کے ساتھ ملک کی آزادی کا نعرہ بلند کرتے رہے اور اس کی پاداش میں دیگر ساتھیوں قاضی عبیداللہ، دیال سنگھ، چیتن دیو، لہنگا سنگھ اور دوسرے راہ نمایانِ آزادی کے ساتھ قید و بند کی صعوبتوں سے دو چار ہوئے۔ موصوف اپنی خود نوشت ’’گزر گئی گزران‘‘ میں ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ ’’جیل میں میرے ساتھ دیگر قیدیوں سے ہٹ کر حسن معاملہ کیا جاتا تھا۔ سچ ہے: من تواضع للّٰہ رفعہ۔‘‘ سیاسی طور پہ آپ امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا سید داود غزنوی، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اور مولانا اسماعیل سلفی رحمہم اللہ وغیرہم سے بے حد متاثر تھے۔ ہند سے پاکستان کی طرف ہجرت: تقسیم کے وقت پھر کیا تھا ہر طرف مار کاٹ، لوٹ پاٹ کا بازار گرم ہو گیا، خاندان بچھڑ رہے تھے، نسل کشی
Flag Counter