Maktaba Wahhabi

498 - 924
حصولِ تعلیم کے بعد بعض مشاغل کی سرگزشت: سوال: حصولِ علم کے بعد کیا مصروفیت اختیار کی؟ بھٹی صاحب رحمہ اللہ: حصولِ علم کے فوراً بعد مجھے ہیڈ سلیمانکی کے محکمہ انہار میں بہ طور کلرک ملازمت مل گئی تھی۔ یہ ملازمت میں نے تقریباً ایک سال ہی کی۔ اس کے بعد میری آوارہ گردی کا سلسلہ شروع ہوگیا اور میں دہلی، متھرا، آگرہ، دھول پور، علی گڑھ، کان پور، میرٹھ وغیرہ معلوم نہیں کن کن شہروں اور علاقوں میں ایک عرصے تک گھومتا رہا۔ اس اثنا میں مجھے ساموگڑھ جانے کا موقع بھی ملا، جہاں ۱۶۵۸ء میں مغل حکمران شاہ جہان کی زندگی میں اس کے دو بیٹوں دارا شکوہ اور اورنگ زیب عالم گیر کے درمیان تخت نشینی کی جنگ ہوئی تھی۔ دارا شکوہ شکست کھا کر بھاگ گیا تھا اور اورنگ زیب ہندوستان کا بادشاہ بن گیا تھا۔ جب آوارہ گردی سے میرا جی بھر گیا تو میں واپس اپنے گھر کوٹ کپورہ آگیا۔ اس وقت استاذِ محترم مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ فیروز پور کی جامع مسجد اہلِ حدیث گنبداں والی میں خطابت و تدریس کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔ تیسرے دن میں ان کو سلام عرض کرنے کے لیے فیروز پور گیا تو فرمایا: اچھا ہوا تم آ گئے۔ کل مولانا معین الدین تشریف لائے تھے اور تمھارے متعلق پوچھ رہے تھے کہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے؟ انھیں مرکز الاسلام میں مدرس کی ضرورت ہے، تم وہاں جاؤ اور کام شروع کر دو، بہت گھوم پھر لیا ہے، اب وہاں کے نصاب کے مطابق مصروفِ عمل ہو جاؤ۔ یہ مارچ ۱۹۴۳ء کی بات ہے۔ مرکز الاسلام موضع ’’لکھو کے‘‘ سے دو میل کے فاصلے پر آبادی سے دور ۱۹۲۸ء کے لگ بھگ مولانا محمد علی لکھوی رحمہ اللہ نے ایک تدریسی ادارہ قائم کیا تھا۔ وہ تو مستقل طور پر مدینہ منورہ چلے گئے تھے اور وہاں مسجدِ نبوی میں قرآن و حدیث کی تدریس میں مشغول ہو گئے تھے۔ ان کے بعد ’’لکھو کے‘‘ کا مدرسہ اور مرکز الاسلام کا ادارہ، جسے جامعہ محمدیہ کے نام سے موسوم کیا گیا، مولانا محمد علی لکھوی کے صاحبزادوں مولانامحی الدین اور معین الدین کے زیرِ اہتمام رہا۔ بہرحال میں مرکز الاسلام چلا گیا اور کچھ عرصے کے بعد چودھری غلام حسین تہاڑیا بھی وہیں آگئے، جنھوں نے فیروز پور کے آر، ایس، ڈی(رام سکھ داس)کالج میں بی اے پاس کیا تھا۔ ہم دو مدرس تھے اور قدیم و جدید نصاب کے مطابق خدمت انجام دیتے تھے۔ اگست ۱۹۴۷ء تک ہم نے وہاں تدریس کی، پھر پاکستان آگئے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ مرکز الاسلام میں آج سے ستر سال پہلے جدید اور قدیم طرز کی تعلیم شروع کر دی گئی تھی، جس کی طرف اصحابِ مدارس کا اب دھیان ہوا ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ خاندانی طور پر ہم لوگ لکھویوں کے مرید ہیں ۔ میرے پردادا حکیم دوست محمد کے بھائی میاں امام الدین مرحوم ہمارے خاندان کے پہلے بزرگ تھے، جنھوں نے مولانا محمد علی لکھوی رحمہ اللہ کے والد محترم
Flag Counter