Maktaba Wahhabi

507 - 924
آج کے طلبا میں اخلاقی تربیت کا فقدان کیوں ہے؟ سوال: جس دور میں آپ نے تعلیم حاصل کی، اس وقت طلبہ کی اخلاقی تربیت کا کیا طریقہ اختیار کیا جاتا تھا؟ کیوں کہ آج کے طالب علم میں پہلے جیسی عاجزی انکساری اور اخلاق نظر نہیں آتا۔ آٹھ سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اور زیادہ بڑائی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ: پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں حضرت علامہ شیخ الفلاں شیخ الفلاں اس طرح کے القابات کا رواج نہیں تھا۔ مولوی صاحب یا پھر حافظ صاحب کہتے تھے، لیکن بڑا احترام تھا۔ اساتذہ کو چاہیے کہ طلبا کو اخلاق اور آداب بھی سکھائیں ۔ حدیثِ جبریل میں آدابِ تعلیم کی بہترین مثال ہے۔ آج کیا ہے؟ بے ادبی کے ساتھ استادوں کے سامنے بیٹھتے ہیں ۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر استاد سے مخاطب ہوتے ہیں ۔ استاد خود ہی شرم سے آنکھیں جھکا لیں تو اور بات ہے۔ احناف میں ادب سکھایا جاتا ہے، حضرت حضرت کہتے ہوئے طالب علم کی زبان نہیں تھکتی۔ استادوں کو دورانِ تعلیم یہ سب ادب اور اخلاق سکھانا چاہیے، جبکہ حالت یہ ہے کہ طالب علم کلاس میں بیٹھے سوتے اور اونگھتے رہتے ہیں ۔ جب وہ اساتذہ ہی کا احترام نہیں کریں گے تو اور کسی کے ساتھ اخلاق کاکیا مظاہرہ کر سکتے ہیں ؟ علمائے ماضی کے اوصاف و خصوصیات: سوال: ماضی کے علما میں جو سادگی، معتدل مزاجی اور حسنِ اخلاق تھا، اس کے بارے میں کچھ تاثرات دیں ؟ بھٹی صاحب رحمہ اللہ: یہ اللہ کا فضل ہے کہ جتنے علما سے مَیں ملا ہوں ، ان کے ساتھ وقت گزارا ہے، مختلف طبقوں اور مختلف مسالک کے علما کو میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں کوئی اور میرا مقابلہ نہیں کر سکتا، ان شاء اللہ۔ مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے ملا، مولانا حفظ الرحمن رحمہ اللہ سے باتیں کیں ، مولانا سعید احمد اکبر آبادی رحمہ اللہ کی مجلس میں بیٹھا، مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ ، مفتی محمد حسن رحمہ اللہ ان لوگوں سے ملا، یہ سب حنفی علما تھے۔ مولانا عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ سے ملا، یہ سب بڑے بااخلاق لوگ تھے، ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ اہلِ حدیث علما میں مولانا ثناء اللہ امر تسری، مولانا عبدالتواب ملتانی، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہم اللہ ان سب سے باتیں کرنے کا، ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت حاصل کی۔ مولانا گوندلوی اور مولانا اسماعیل سلفی رحمہما اللہ ان کی خدمت میں طویل وقت گزارا۔ مولانا داود غزنوی ان کے بھائی مولانا عبدالغفار غزنوی، پھر ان کے چچا زاد بھائی مولانا اسماعیل غزنوی رحمہم اللہ ۔ ان میں باہم سیاسی اختلافات بھی تھے، بعض مسائل میں بھی اختلاف تھا، مسلکی اختلافات بھی تھے، لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کا آپس میں ادب و احترام کا تعلق تھا۔ سختی نہیں تھی، مولانا عبدالوہاب رحمہ اللہ جن کا کہنا تھا کہ سربراہ کو امیر یا صدر کے بجائے امام کہنا چاہیے۔ اس موضوع پر مناظرے بھی ہوئے، میں نے خود سنے۔ تقسیم کے بعد حالات تبدیل ہو گئے، پھر ان موضوعات پر کوئی مناظرے بازی اور ہنگامہ آرائی نہیں ہوئی، جس طرح آج ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی جاتی
Flag Counter